پوئٹری آف دی طالبان


غالب نے کہا تھا:'' شاعر وہ ہے جس کو قطرے میں دجلہ نظر آجائے،جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی وہ دیدہء بینا نہیں بچوں کاکھیل ہے'' ۔ فیض نے اسی پر گرہ لگائی اور مزید کہا کہ ''شاعر کا کام محض دجلہ دیکھنا نہیں دکھا نا بھی ہے''۔شاعری کا یہ حق ہر دور میں ہر شاعر نے ادا کرنے کی کوشش کی مگر افغانستان کے'' فقیر'' منش طالبان کے'' درویش''صفت شعراء نے یہ حق اس خوبی سے ادا کیا کہ اس کی گونج اب پشتو سے ناواقف ، افغانوں کے طرز فکر سے بے خبر گورے مغربیوں کے دیس میں بھی سنائی دے رہی ہے۔بی بی سی اردو ویب سائٹ پر 17اگست 2012جمعہ کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ کیجیے :''آکسفورڈیونیورسٹی پریس پاکستان نے ''طالبان کی شاعری'' کے نام سے افغانستان کے طالبان کی دو سو ایسی نظموں کا انتخاب اور انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے جو سنہ انیس سو نوے کے بعد لکھی گئیں۔اس کتاب کا اجرا آکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کی رہائش گاہ پر بدھ کی شام کو دیے جانے والے افطار عشائیہ میں ہوا

جرم ضعیفی


اقبال نے ایک لافانی مصرعہ کہا تھا :
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
 برما کے مظلوم مسلمانوں کا بھی اس کے علاوہ کوئی قصور نہیں کہ وہ اپنے خطے میں کمزور تھے۔ طاقت اور اسلحہ ان کے پاس نہیں تھا ۔ سیاسی لحاظ سے انہیں مضبوط ہونے نہیں دیا گیا تھا ،اور ستم تو یہ کہ وہ لوگ جن کی گذشتہ تین نسلیں بودھسٹوں کی رحم وکرم پر ہیں اور صبح شام ان کے مظالم سہہ رہے ہیں ایسے خطے کے بارے میں مکمل معلومات آج تک دنیا کے مسلمانوں کو نہیں پہنچیں ۔ اظہار رائے کی آزادی جو اس جمہوری دور میں ہر انسان کا بنیادی حق ہے برما کے مسلمانوں کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مظلومیت کی تاریخ سے تفصیلی طور پر آج تک ہم ناواقف ہیں ۔ ہمیں خبر نہیں کہ کس دور میں کون کون سے مظالم کے پہاڑ تھے جو ان مسلمانوں پر ڈھائے گئے ۔ برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے عالمی میڈیا کی بے خبری کی وجہ سے کافی عرصے تک تو اس قضیے کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی اور پھر جب بعض آزاد ذرائع نے سوشل میڈیا پر مظلوم برمیوں کی تصاویر شائع کیں