ہم تو بندے ہیں ہمیں کیا معلوم


رات ہوگئی ہے ، اب میں اپنے سسٹم کے سامنے بیٹھا منتشر خیالات کے بے لگام گھوڑے دوڑا رہاہوں ، سوچ رہاتھا  اپنے "نومولود بلاگ "کے لیے کچھ سطور لکھوں مگر دل ودماغ پر آج کوئٹہ شہر کے صورتحال کی پرچھائیاں پڑی ہوئی ہیں اور انہیں واقعات کی فلم ذہن میں چل رہی ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور ذہن میں آتا ہی نہیں ۔
ہوا یہ کہ آج شارع اقبال پر رکشہ جیسے ہی مڑا سامنے بازار سارا بند نظر آیا ، لوگوں میں خوف اور بے اطمینانی نظر آرہی تھی ۔ بلدیہ پلازہ اور لیاقت بازار سارا بند پڑاتھا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اب سے کچھ دیر قبل یہاں منان چوک پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 3افراد قتل جبکہ ایک شدید زخمی ہوگیا ۔ حادثہ کے فورا بعد لوگ جمع ہوگئے ، یہ ایک شخص کا آنکھول دیکھا حال ہے ، خدا جانے اس زخمی کی حالت اب کیاہے ، میں ٹی وی نہیں دیکھتا ، تازہ صورتحال کیا ہے مجھے نہیں معلوم ، جلتے ٹائر ، لپکتے شعلے اور سیاہ دھویں کے اٹھتے ہوئے مرغولے ، یہ آسیب زدہ اور خوفناک صورتحال تو شام ڈھلتے ہی نظر آرہی تھی ، ٹی وی پر پٹیاں چل چکی ہوں گی ، نیوز ریڈرز نے ایک بارپھر تازہ دم لہجے میں خبر سنائی ہوگی اور ممکن ہے وہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہاں ہمارے رحمان ملک نے ٹی وی کیمرے کے سامنے وہی میاں مٹھو کی طرح رٹا ہوا جملہ سنایا ہو کہ "  دہشت گردوں کی شناخت ہوگئ"۔ ممکن ہے انہوں نے ان کے آنے اور واپس جانے کی روٹ بھی بتادی ہو ، بلکہ ہوسکتا ہے دہشت گردوں کے آبائی علاقے اور ان کے حسب نسب بھی بیان کرچکے ہوں ، کیا کیا جائے کہ انہیں سب معلومات ہیں مگر ان کی گرفتاری کیسے ممکن ہے یہ ملک صاحب نہیں جانتے۔
یہ ایک حادثہ تھا مگر اسے سانحہ کہنا شاید زیادہ بہتر ہے کیوں کہ
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
حادثہ دیکھ کر کوئی رکا نہیں
یہ حادثہ بھی سربازار ہوا اور قاتل تھے کہ آئین ، قانون ، ہزاروں پولیس ، ایف سی ، فوج اور انٹیلی جنس اداروں کا مذاق اڑاتے ہوئے مکھن سے بال کی طرح صحیح سالم اور زندہ سلامت نکل گئے ۔
ابھی ذہن نے یہ حادثہ بھی ٹھیک طرح سے "ہضم " نہیں کیا تھا کہ پے درپے ایس ایم ایس نے ایک اور سانحے کی اطلاعات پہنچائیں ۔
یہ سانحہ میرے کراچی میں ہوا جی ہاں وہی شہر جس سے میری رومان پرور یادیں وابستہ ہیں ۔ اس سابقہ عروس البلاد شہر میں بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے چند لمحے پہلے کوئٹہ میں ہوچکا تھا ۔ وہی  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ ، بے گناہ لوگوں کاقتل اور وہی دندھناتے ، قانون ، آئین ، سیکیورٹی وانٹیلی جنس اداروں کا مذاق اڑاتے ہوئے کروڑوں لوگوں کے شہر میں لوگوں کے بیچ میں سے مکھن سے بال کی طرح محفوظ نکل جانا ۔
ایک سین ، ایک ہی منظر ، ایک ہی طرح کا ڈرامہ اور ایک ہی طرح کے کردار ۔ مختلف ہیں تو قاتل اور مقتول مختلف ہیں ۔ یہاں جو مقتول تھے وہاں وہ قاتل۔ یہاں جو کچھ دیر قبل مظلوم تھے تھوڑی ہی دیر بعد وہ ظالم ۔ یہاں سپینی روڈ ، ڈبل روڈ اور منان چوک پر فائرنگ ہوئی ، تینوں واقعات میں تقریبا 7افراد ہلاک ہوگئے جبکہ گلشن اقبال کراچی میں ہونے والے اسی طرح کے واقعے میں ایک دینی مدرسے کے 8معصوم طلبہ شہید ہوگئے ۔
اب ایک ہی جرم ہے اور ایک جیسے ہی واقعہ ۔ کس کو ظالم قراردیں اور کس کو مظلوم ؟ کھیل اور چھوٹا موٹا نہیں گریٹ گیم جاری ہے ۔ کھلاڑی پس پردہ بیٹھے بٹن دبارہے ہیں اور ہم عوام ہیں کہ جن کی جان پر بنی ہے ۔ رحم وکرم کی توقع کس سے کریں اور سمجھائیں تو کس کو ؟ ادھر غریب لوگ غریب عوام ہیں کہ غربت اور مہنگائی کے خونی پنجوں میں پھنسے ہیں ادھر بدامنی ہے کہ بیویوں کا سہاگ ، ماوں کی ممتا اور بہنوں کے مان اور بیٹیوں کے سروں سے شفقت کا سایہ چھینتے چلے جارہے ہیں ۔
خدا جانے یہ طوفان کہاں جاکر تھمے گا ۔ کب قتل وخون کا یہ سلسلہ جاکر رکے گا ۔ آگ اور دھویں کے بادل کب چھٹیں گے اور کب اس دھرتی کا سکون واپس لوٹے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا تعالی بہتر جانے کہ وہی علیم ہے ۔  ہم تو بندے ہیں ہمیں کیا معلوم وہی خبیر ہے ۔