قادیانی دانشیئے



فیس بک پر بیٹھے ہوئے ہمارے قادیانی طرم خان الفاظ کے طلسم باندھ کر نہ جانے خود کو کیا سے کیا بنا بیٹھتے ہیں ۔ عقل ودانش گویاان کے سامنے نمکدانی میں ہروقت دھرا رہتا ہے ،اپنی ہرپوسٹ پر اس کا چھڑکاؤ کرکے وہ ہر بدمزہ سے بدمزہ پوسٹ کو اس کا ذائقہ چڑھاتے ہیں ۔ یا "فہم ودانش" ایک دھونی ہے جو وہ گالیوں ، مسخرے پن اور "زنا پسندی" کے ہر بھبھوکے دار چیز کو دے کر فیس بک پر روزانہ پیش کرتے ہیں اور اپنے "حلقہء قادیان" سے خوب داد حاصل کرتے ہیں ۔ "حلقہ قادیان" اس لیے کہا کہ کوئی مسلمان کبھی کسی قادیانی کے جال میں نہیں پھنستا ۔ ہر کمزور سے کمزور مسلمان اتنا باشعور ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنے عقائد کے مخالف امور کی پہچان کرسکتا ہے ۔ اس لیے فیس بک کی کسی پوسٹ پر اگر کسی قادیانی کو لائک یا کمنٹ مل رہی ہوں تو اس چالبازی سے بے خبر مسلمانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ایک قادیانی لوگوں کے ایمان لوٹنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔

تاریخ سے چشمک

وجاہت مسعود صاحب روزنامہ جنگ کے معروف رائٹر ہیں ۔ ان کے کاٹ دار مگر انتہائی سنجیدہ کالم مجھے بہت پسند ہیں ۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود تقریبا ان کی ہر تحریر میں پڑھتا ہوں ۔ ان سے نظریاتی اختلاف چند جزئیات میں نہیں پورے اصول میں ہے ۔ اس لیے ان پر تنقید کو بھی جی کرتا ہے ۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وہ تقریبا ہر معاملےمیں مذہب اور عقیدے کو سائڈپر لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں انہیں ایتھسٹ تو نہیں کہتا اور نہ انہوں نے کبھی اس کا دعوی کیا ہے ہاں اس سے کم یعنی لبرل انہیں ضرور سمجھتا ہوں ۔ آ ج کی چند سطور رقم کرنے کا باعث بھی ان کا ایک کالم ہے ۔
 21 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں "تاریخ سے چشمک "کےعنوان سےشائع ہونے والے ایک کالم میں انہوں نے بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے اسباب کا ذکر کیا ہے ۔ ان کی تحریر کا لب لباب جہاں تک مجھے سمجھ آیا ہے وہ یہ کہ ہم نے پاکستان کے شیرازے کو مذہب کی بنیاد پر جوڑنے کی کوشش کی تھی جو زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ۔

اسلامی خلافت اور تھیوکریسی



پاپائیت کے اندھیر  سے نکلنے کے بعد یورپ کے سامنے سیکولر جمہوریت ہی ایک واضح نظام حکومت تھا ۔ جسے ہر مغربی قوت نے اپنی مرضی کے مطابق تراش کر اپنی مرضی کے مطابق اپنایا۔ مغرب نے اس نظام کو اپنانے کے بعد اسے تقدس کے اس سنگھاسن پر بٹھا یا کہ اب اس کے خلاف بات کرنا گویا انسانیت کے خلاف بات کرناہے ۔ حالانکہ یہ بھی ایک نظام ہے اور انسانوں کا بنایا ہوا نظام ۔ اس میں ہزار خامیوں اور برائیوں کا امکان ہوسکتا ہے۔ مگر چونکہ یہ مغرب کا پسند کیا ہوا نظام ہے اس لیے اس پر تنقید کا حق بھی انہیں کے ہاں محفوظ ہے ۔ اب دنیا میں ہر نظام کو پرکھنے کا معیار جمہوریت ہی ٹھہر گیا ۔ جمہوریت کا چشمہ پہن کر ہر نظام پر تنقیدی نگاہ ڈالی جاتی ہے ۔ حالانکہ ہرنظام اپنے اندر خصوصیات رکھتاہے ۔ ٹھیک ہے بظاہر جمہوریت میں عوام کو حق حکومت دیا جاتا ہے مگر اس کی خامیاں بھی تو الاماں الحفیظ ۔ اسلامی نظام خلافت انسانی تاریخ کا وہ نظام ہے جس نے بادشاہت اور حکمرانی کا انداز بدل رکھ دیا ۔ عوام کا خادم ہر حاکم خود کو کہتا ہے مگر حقیقی طورپر جس نے عوام کا خادم بن کر دکھایا ۔ انسانیت کو بادشاہت کا ایک نیا رخ متعارف کروایا ۔ بادشاہوں اور اہل اقتدار کو عوام کی حقیقی خدمت کا طریقہ سکھایا ۔

فیس بکی ملحد اور قادیانی

کہتے ہیں زمانے کے اقدار بدل گئے ہیں ۔ یا زمانے کو رہنے دیجیئے زمانے کے لوگ بدل گئے ہیں اور ایسے بدلے ہیں کہ صلاحیتوں کے ساتھ افکار اور نظریات میں بھی کمزوری اور اضمحلال آگیا ہے ۔ اس کی ایک مثال ہمارے فیس بکی ملحد بھی ہیں ۔ ویسے کہنے کو یہ ملحد بھی وہی صدیوں پرانے حکمت ، فلسفے اور علم منطق کے زمانہ عروج کے ملحد ہیں مگر اپنے لیے جو انہوں نے نئے نام رکھے ہیں وہ بہت لکش اور شاندار ہیں ۔ عقائد میں انیس بیس کی تحریف کرکے سمجھتے ہیں دنیا میں ایک جدید فکر لے کر اٹھ رہے ہیں ۔ ان کی طرح ہمارے فیس بکی ملحدوں کو عقلیت پسندی کا دعوی ہے ۔ ہر چیز کے لیے منطقی جواز کی رٹ ان کی زبان پر بھی ہوتی ہے مگر حکمت ، فلسفہ اور منطق کے متعلق ان کی معلومات "منطق" کے اس چار حرفی لفظ سے زیادہ نہیں ہوتیں ۔ سوشل میڈیا پر ان کا بازار خوب گرم ہے ، مذہب کے حلال وحرام سے جان چھڑانے اور شتر بے مہار کی سی زندگی گذارنے کے شوقین چند مغبچے فیس بک پر جمع ہوکرمحفل گرم کرتے ہیں ۔

عبدالقادرملا کی شہادت ......... القاعدہ کی اخلاقی فتح

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ عبدالقادر ملاکو اسلام سے محبت کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی ۔ان کی تدفین کے بعد پورے بنگلہ دیش میں پرتشدد ہنگاموں کا آغاز ہوگیا ۔ ان مظاہروں میں اب تک 24 افراد جان بحق ہوچکے ہیں ۔ عبدالقادر ملاکوجس طرح مجرم ثابت کیا گیا پھر انہیں عمر قید کی سزاسنائی گئی اور جس طرح عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل دیا گیا کوئی بھی صاحب عقل اس کا انکار نہیں کر سکتاکہ یہ سب ایک ڈرامائی پروگرام تھا۔ چارعشرے بعد کسی شخص کو آنا فانا مجرم بنانا اور عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل کر سولی پر چڑھا دینا یہ کہاں کی دانشمندی ہے ؟ انصاف کے کونسے تقاضے تھے جن کے باعث یہ اقدام کیا گیا ؟ اس پر مستزاد عالمی میڈیا کا افسوسناک رویہ ہے جس سے بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر کے اسلام پسند عوام کے دلوں کو دکھ پہنچا ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹیں ملاحظہ کریں ہر سطر میں عبدالقادر ملا کو ایک مجرم اور اس کے رد عمل میں ہونے والے ہنگاموں کو خون خرابے سے تعبیر کیا گیاہے اور لوگوں کے اشتعال کو انتقامی کارروائی قراردیاگیاہے ۔

مکمل اخلاق،مکمل ہدایت،مکمل انسانیت


بہت عرصہ ہوا ایک کتاب ایک مہربان کے ہاتھوں مطالعے کے لیے ملی ، کتاب کا نام تھا ’’سو عظیم شخصیات ‘‘۔ یہ کسی انگریز کی لکھی ہوئی ہے اوراس میں ان سو عظیم شخصیات کے مختصر حالات جمع کیے گئے جنہوں نے دنیا میں ایسا کوئی تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے دنیا کو ایک نیارخ ملا ہے ۔ اور جنہوں نے انسانی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس کتاب کی فہرست پر نظر ڈالیں یا کتاب کو رکھیں ایک طرف ،اپنے احاطہ معلومات پر نظر دوڑائیں ۔انسانی تاریخ میں کتنے لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے تاریخ کی لوح پر ابدی حیات پائی ہے ۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے نام ہم تک محفوظ چلے آئے ہیں ۔ ہمارے ذہنوں سے ان کے نام محو نہیں ہوتے ۔ بہت سے ایسے ہیں جو اب ہمارے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں ۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ان کا نام کئی بار ہماری زبانوں پر آتا ہے ،

اردو بلاگر


اب تک تو ایم بلال ایم کا زبانی کلامی شکریہ اداکرنا بھی ہمارے ذمے قرض ہے ۔ کوئی چار ماہ ہوتے ہیں ہم نے بھی ایک اردو بلاگ بنایا ہے ۔ بلاگ بنانے کا سارا طریقہ اور سارا نظام ہم نے انہیں کے معلومات افزاء مضامین سے سیکھا ہے ۔ بلاگ بنانے سے قبل بلاگرزکی دنیا کے متعلق کوئی خاص معلومات بھی نہیں تھیں بس کبھی کبھی ابوشامل ، ایم بلال ایم ، ڈفرستان یا اور دیگر بلاگز دیکھ لیتے اور بس اسی دیکھنے پر ہی اکتفاء کرلیتے ۔ لکھنے لکھانے سے تعلق تو یوں تو بہت پرانا ہے مگر قلم کی بجائے کی بورڈ پر تخلیقی کام کرنے کا تجربہ پہلی بار کررہے ہیں ۔ اس لیے ہم پہلے تو ایم بلال کا شکریہ اداکرتے ہیں یقینا برقی دنیا میں اردو کی ترویج کے لیے کوششیں کرنا قابل قدر ہے ۔ اردو بلاگ بنانے کے طریقے سمجھنا وہ بھی انتہائی عرق ریزی اور باریکی کے ساتھ، یہ سب چیزیں بتاتی ہیں ان کو اردو کی ترویج سے محبت ہے ۔

یوم خواتین،مغرب اوراسلام _ آخری قسط


مغرب کے اعتراض کا جواب:
جہاں تک مغرب کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ گھر میں رہنے سے عورت کا کردار محدود ہوجاتا ہے ۔ اسلام عورت کے کردار کو محدود کرتا اور اس کی ترقی کی راہیں مسدود کرتا ہے ۔ تو عرض ہے کہ عورت کی جسمانی اور ذہنی صلاحتیں فطری طورپر ہیں ہی ایسی کہ جس کی وجہ سے اس کے لیے نمایاں کارنامہ انجام دینا مشکل ہوتاہے ۔ البتہ ایسا بھی نہیں اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین رہی ہیں جن کو اللہ تعالی نے ذہانت اور صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انہوں نے علوم وفنون کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ جس کا تصور بڑے بڑَے مردوں کے لیے مشکل ہے

یوم خواتین،مغرب اور اسلام _ چوتھی قسط



مغرب کی واپسی :
مغربی مفکرین اپنی تہذیب کی بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہیں کہ اپنے معاشرے کو پھر سے پرانے خطوط پر استوار کردیں ۔ مفکرین اور دانشور پھر سے نوجوانوں خصوصا خواتین کو اختلاط اور آزادی سے روکنے کا درس دے رہے ہیں مگر مغرب کے آوارہ نوجوان اپنی ہوس میں مست سنجیدہ طبقے کی بات سننا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ یورپ اور امریکہ میں اب ایک بار پھر عورت کو گھر واپس آنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ پھر سے سیمینارز اور شوز میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بچوں کی تربیت کے لیےماں کا گود پہلا سکول ہے ، بچوں کی تربیت پر توجہ دینے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ ماں کے دودھ سے زیادہ بچوں کے لیے کوئی مفید غذا نہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب یہ کوششیں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور مغرب کیسے پرانی روش پر آتا ہے اس میں تو شاید ایک صدی سے بھی زائد کا عرصہ لگے مگر مسلمان ممالک میں اب بھی ان کے ادارے انہیں کوششوں میں مصروف ہیں ۔

یوم خواتین،مغرب اور اسلام _ تیسری قسط



خرابی کا آغاز اور اس کے تباہ کن اثرات:
دراصل خرابی کی جڑ بھی یہی ہے ۔ وہ عورت جو اس سے قبل مرد کے لیے شریکہ حیات بن کر اسے سہارا دیتی ۔ ماں جو ہر وقت بیٹے کو اپنی دعاوں کے حصار میں رکھتی ۔ بہن اور بیٹی جس کی محبت اپنے بھائی اور باپ کے گرد ہالہ بن کررہتی ۔یورپ کے شاطر دماغ ساہوکاروں نے سب سے پہلے اسے مرد کے مقابلے میں کھڑا کردیا۔  بلاکسی وجہ اسے یہ احساس دلایا جانے لگا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے معاون نہیں بلکہ مخالف فریق ہیں حالانکہ یہ بات اسلامی تعلیمات کے  صریح خلاف ہے ۔قرآن مجید نے صاف فرمایا : هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّعورت تمھارے لیے ستر ہے اور تم ان کے لیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : النساء شقائق الرجال ۔

یوم خواتین،مغرب اور اسلام _ دوسری قسط



تقابلی جائزہ:
عورت کے معاشرتی مقام پر گزرنے والے تین ادوار کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اب تقابل کی باری آتی ہے ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے کا دور بھی غیرمسلم اقوام اور مذاہب کا دور تھا جبکہ یورپ کے معاشی انقلاب کے بعدکا دور بھی غیرمسلم مغربیوں کا دور ہے ۔ درمیان میں اسلام کے ظہور کےبعد اس کی تعلیمات کا انقلابی دور ہے ۔ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور روشن انقلاب کا تقابل قبل از اسلام کے ساتھ نہیں کرتے کیوں کہ وہ تو خود یورپ کے ڈارک ایجز سے بھی پہلے کا دور ہے ۔ اس دور کی بڑی تہذیبیں آج بالکل نیست ونابود ہیں یا انہیں آج اپنی پرانی تہذیب پر فخر ہی نہیں رہا ۔ اس لیے اصل تقابل یورپ کے موجودہ ترقی یافتہ دور سے ہے ۔ یورپ کو اپنی جس تہذیب ، اخلاق اور ترقی کے دورپر ناز ہے اور جس میں وہ خواتین کے حقوق کا انتہائی زیادہ پروپیگنڈا کررہا ہے ہم اسلام کی روشن تعلیمات اور دیے گئے حقوق کا تقابل اس دور سے کریں گے ۔
حقوق نسواں کے حوالے سے یورپ کے تمام تر پروپیگنڈے پر سوچا جائے تواس کا خلاصہ دو باتیں سامنے آتی ہیں جس کی بنیاد پروہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں :
1: حجاب اوڑھنے کی پابندی ۔
2: عورت کو گھر کی چاردیواری تک محدود کردینا ، ان کے گھروں سے نکلنے اور ملازمت کرنے پر پابندی عائد کرنا ۔

یوم خواتین،مغرب اوراسلام _پہلی قسط



8مارچ کو اہل مغرب یوم خواتین مناتے ہیں ۔ مغرب کے دیکھادیکھی مسلمانوں میں بھی یہ وبا عام ہے ۔ یہ دن خواتین کے حقوق اور ان کی حیثیت اجاگرنے کے لیے منایا جاتا ہے ۔ یورپ گزشتہ دو صدیوں سے خواتین کے حقوق کا پروپیگنڈا کررہا ہے ۔ عورت کوحقوق دینے کے نام پر اس کے کئی این جی اوز اور ادارے کام کررہے ہیں ۔ اس معاملے میں کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ ،آج کی مجلس میں ہم ذرا اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔
معاشرے میں عورت کے تین ادوار:
اجتماعی معاشرتی صورتحال کو دیکھیں تو انسانی تاریخ میں عورت پر تین ادوار گذرے ہیں ۔ پہلا دور قبل از اسلام کا ہے جہاں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ مرد کے مقابلے میں عورت کو معاشرے کا جزو معطل سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تخلیق کا مقصد محض مرد کی خدمت اور چاکری تھی ۔ رہن سہن ، لباس پوشاک ، کھانے پینے غرض ہر معاملے میں وہ مرد کے رحم وکرم پر تھی ۔ ادھر وہ دانشور جن کے نظریات کا آج بھی چرچا ہے وہ کبھی تو عورت کو سانپ بچھو قرار دیتے اور کبھی اسے انسان نما حیوان کہتے ۔ ان کا کہنا تھااس کی تخلیق کا مقصد مرد کے لیے بچے پیدا کرنا اور اس کی خدمت کرنا ہے ، اسے سارے فساد اور خرابیوں کی جڑ کہا جاتا تھا ۔ دنیا کی دو بڑی تہذیبیں روم اور فارس جو دنیا کی متمدن تہذیبیں کہلاتی تھیں وہاں بھی یہی صورتحال تھی،جانوروں کی طرح عورتوں کی خرید وفروخت ہوتی تھی ۔ عرب معاشرے میں عورت کو جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کا سامنا تھا، جنسی تسکین کے لیے خواتین کے تبادلے اور کرائے پر لین دین عام تھی ۔ بلکہ نکاح کا نام دے کر اسے قانونی جواز بخشا گیا تھا ۔

کچھ تو ہم بھی عزم کریں



منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
          منیر نیازی مرحوم کا یہ شعر زبانوں پر چڑھ کر بہت پامال ہوچکا ہے مگر اس ملک کی حالت زار دیکھ کر ہمیشہ یاد بھی آتا ہے ۔ ساٹھ سے چند زائد برس ہوئے جب اس قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی ، علماءنے قربانیاں دیں ، مسلم لیگ کو مسلمانوں نے بھرپورسپورٹ کیا تو ایک ملک بنا۔ آج وہ ملک ڈھونڈرہا ہے اس قوم کو جس نے اسے دریافت کیا تھا ، جس نے اس کی تخلیق کا نقشہ مرتب کیا اور جس نے اس نقشے میںلہو سے رنگ بھرنے کے لیے اپنا جگر نچوڑ ا ۔ آج بھی ایسے لوگ بقید حیات ہیں جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کیا اور جنہوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کرکے بالکل تہی دامنی اور بے سروسامانی میںاس سرزمین پر قدم رکھا ۔ وہ واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس قدر وحشت ، خوف اور ظلم وستم کاانسان صرف تصور ہی کرسکتا ہے ۔فرصت ملے تو معروف بیوروکریٹ اور شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب کا ناول یاخدا “ ضرور پڑھیے ۔