اک شہر آرزو



قدرت اللہ شہاب نے کہا تھا : "چندراوتی سے جب مجھے عشق ہوا تو اس کو مرے ہوئے تین دن ہوچکے تھے "۔ ہمیں بھی کراچی سے عشق اس وقت ہوا جب اسے چھوڑے ہوئے ہمیں عرصہ بیت چکا تھا ۔ اس تعبیر کے لیے منیر نیازی مرحوم کا سہارا لیتے ہیں ۔
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جایئنگے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
محبت ان لمحوں سے نہیں ہوتی جنہیں بعد کی زندگی میں ہم اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں ،ان کی یاد سے ہوجایا کرتی ہے ۔ وہ لمحے جو ذہن کے کینوس پر ایک دائمی یاد بن کر نقش ہوجاتے ہیں اس مصور کے شاہکار کی طرح جس  کے ہاتھ اس کے بعد قلم کردیے گئے ہوں ۔

قادیانی دانشیئے



فیس بک پر بیٹھے ہوئے ہمارے قادیانی طرم خان الفاظ کے طلسم باندھ کر نہ جانے خود کو کیا سے کیا بنا بیٹھتے ہیں ۔ عقل ودانش گویاان کے سامنے نمکدانی میں ہروقت دھرا رہتا ہے ،اپنی ہرپوسٹ پر اس کا چھڑکاؤ کرکے وہ ہر بدمزہ سے بدمزہ پوسٹ کو اس کا ذائقہ چڑھاتے ہیں ۔ یا "فہم ودانش" ایک دھونی ہے جو وہ گالیوں ، مسخرے پن اور "زنا پسندی" کے ہر بھبھوکے دار چیز کو دے کر فیس بک پر روزانہ پیش کرتے ہیں اور اپنے "حلقہء قادیان" سے خوب داد حاصل کرتے ہیں ۔ "حلقہ قادیان" اس لیے کہا کہ کوئی مسلمان کبھی کسی قادیانی کے جال میں نہیں پھنستا ۔ ہر کمزور سے کمزور مسلمان اتنا باشعور ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنے عقائد کے مخالف امور کی پہچان کرسکتا ہے ۔ اس لیے فیس بک کی کسی پوسٹ پر اگر کسی قادیانی کو لائک یا کمنٹ مل رہی ہوں تو اس چالبازی سے بے خبر مسلمانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ایک قادیانی لوگوں کے ایمان لوٹنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔

تاریخ سے چشمک

وجاہت مسعود صاحب روزنامہ جنگ کے معروف رائٹر ہیں ۔ ان کے کاٹ دار مگر انتہائی سنجیدہ کالم مجھے بہت پسند ہیں ۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود تقریبا ان کی ہر تحریر میں پڑھتا ہوں ۔ ان سے نظریاتی اختلاف چند جزئیات میں نہیں پورے اصول میں ہے ۔ اس لیے ان پر تنقید کو بھی جی کرتا ہے ۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وہ تقریبا ہر معاملےمیں مذہب اور عقیدے کو سائڈپر لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں انہیں ایتھسٹ تو نہیں کہتا اور نہ انہوں نے کبھی اس کا دعوی کیا ہے ہاں اس سے کم یعنی لبرل انہیں ضرور سمجھتا ہوں ۔ آ ج کی چند سطور رقم کرنے کا باعث بھی ان کا ایک کالم ہے ۔
 21 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں "تاریخ سے چشمک "کےعنوان سےشائع ہونے والے ایک کالم میں انہوں نے بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے اسباب کا ذکر کیا ہے ۔ ان کی تحریر کا لب لباب جہاں تک مجھے سمجھ آیا ہے وہ یہ کہ ہم نے پاکستان کے شیرازے کو مذہب کی بنیاد پر جوڑنے کی کوشش کی تھی جو زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ۔

اسلامی خلافت اور تھیوکریسی



پاپائیت کے اندھیر  سے نکلنے کے بعد یورپ کے سامنے سیکولر جمہوریت ہی ایک واضح نظام حکومت تھا ۔ جسے ہر مغربی قوت نے اپنی مرضی کے مطابق تراش کر اپنی مرضی کے مطابق اپنایا۔ مغرب نے اس نظام کو اپنانے کے بعد اسے تقدس کے اس سنگھاسن پر بٹھا یا کہ اب اس کے خلاف بات کرنا گویا انسانیت کے خلاف بات کرناہے ۔ حالانکہ یہ بھی ایک نظام ہے اور انسانوں کا بنایا ہوا نظام ۔ اس میں ہزار خامیوں اور برائیوں کا امکان ہوسکتا ہے۔ مگر چونکہ یہ مغرب کا پسند کیا ہوا نظام ہے اس لیے اس پر تنقید کا حق بھی انہیں کے ہاں محفوظ ہے ۔ اب دنیا میں ہر نظام کو پرکھنے کا معیار جمہوریت ہی ٹھہر گیا ۔ جمہوریت کا چشمہ پہن کر ہر نظام پر تنقیدی نگاہ ڈالی جاتی ہے ۔ حالانکہ ہرنظام اپنے اندر خصوصیات رکھتاہے ۔ ٹھیک ہے بظاہر جمہوریت میں عوام کو حق حکومت دیا جاتا ہے مگر اس کی خامیاں بھی تو الاماں الحفیظ ۔ اسلامی نظام خلافت انسانی تاریخ کا وہ نظام ہے جس نے بادشاہت اور حکمرانی کا انداز بدل رکھ دیا ۔ عوام کا خادم ہر حاکم خود کو کہتا ہے مگر حقیقی طورپر جس نے عوام کا خادم بن کر دکھایا ۔ انسانیت کو بادشاہت کا ایک نیا رخ متعارف کروایا ۔ بادشاہوں اور اہل اقتدار کو عوام کی حقیقی خدمت کا طریقہ سکھایا ۔

فیس بکی ملحد اور قادیانی

کہتے ہیں زمانے کے اقدار بدل گئے ہیں ۔ یا زمانے کو رہنے دیجیئے زمانے کے لوگ بدل گئے ہیں اور ایسے بدلے ہیں کہ صلاحیتوں کے ساتھ افکار اور نظریات میں بھی کمزوری اور اضمحلال آگیا ہے ۔ اس کی ایک مثال ہمارے فیس بکی ملحد بھی ہیں ۔ ویسے کہنے کو یہ ملحد بھی وہی صدیوں پرانے حکمت ، فلسفے اور علم منطق کے زمانہ عروج کے ملحد ہیں مگر اپنے لیے جو انہوں نے نئے نام رکھے ہیں وہ بہت لکش اور شاندار ہیں ۔ عقائد میں انیس بیس کی تحریف کرکے سمجھتے ہیں دنیا میں ایک جدید فکر لے کر اٹھ رہے ہیں ۔ ان کی طرح ہمارے فیس بکی ملحدوں کو عقلیت پسندی کا دعوی ہے ۔ ہر چیز کے لیے منطقی جواز کی رٹ ان کی زبان پر بھی ہوتی ہے مگر حکمت ، فلسفہ اور منطق کے متعلق ان کی معلومات "منطق" کے اس چار حرفی لفظ سے زیادہ نہیں ہوتیں ۔ سوشل میڈیا پر ان کا بازار خوب گرم ہے ، مذہب کے حلال وحرام سے جان چھڑانے اور شتر بے مہار کی سی زندگی گذارنے کے شوقین چند مغبچے فیس بک پر جمع ہوکرمحفل گرم کرتے ہیں ۔

عبدالقادرملا کی شہادت ......... القاعدہ کی اخلاقی فتح

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ عبدالقادر ملاکو اسلام سے محبت کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی ۔ان کی تدفین کے بعد پورے بنگلہ دیش میں پرتشدد ہنگاموں کا آغاز ہوگیا ۔ ان مظاہروں میں اب تک 24 افراد جان بحق ہوچکے ہیں ۔ عبدالقادر ملاکوجس طرح مجرم ثابت کیا گیا پھر انہیں عمر قید کی سزاسنائی گئی اور جس طرح عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل دیا گیا کوئی بھی صاحب عقل اس کا انکار نہیں کر سکتاکہ یہ سب ایک ڈرامائی پروگرام تھا۔ چارعشرے بعد کسی شخص کو آنا فانا مجرم بنانا اور عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل کر سولی پر چڑھا دینا یہ کہاں کی دانشمندی ہے ؟ انصاف کے کونسے تقاضے تھے جن کے باعث یہ اقدام کیا گیا ؟ اس پر مستزاد عالمی میڈیا کا افسوسناک رویہ ہے جس سے بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر کے اسلام پسند عوام کے دلوں کو دکھ پہنچا ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹیں ملاحظہ کریں ہر سطر میں عبدالقادر ملا کو ایک مجرم اور اس کے رد عمل میں ہونے والے ہنگاموں کو خون خرابے سے تعبیر کیا گیاہے اور لوگوں کے اشتعال کو انتقامی کارروائی قراردیاگیاہے ۔

مکمل اخلاق،مکمل ہدایت،مکمل انسانیت


بہت عرصہ ہوا ایک کتاب ایک مہربان کے ہاتھوں مطالعے کے لیے ملی ، کتاب کا نام تھا ’’سو عظیم شخصیات ‘‘۔ یہ کسی انگریز کی لکھی ہوئی ہے اوراس میں ان سو عظیم شخصیات کے مختصر حالات جمع کیے گئے جنہوں نے دنیا میں ایسا کوئی تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے دنیا کو ایک نیارخ ملا ہے ۔ اور جنہوں نے انسانی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس کتاب کی فہرست پر نظر ڈالیں یا کتاب کو رکھیں ایک طرف ،اپنے احاطہ معلومات پر نظر دوڑائیں ۔انسانی تاریخ میں کتنے لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے تاریخ کی لوح پر ابدی حیات پائی ہے ۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے نام ہم تک محفوظ چلے آئے ہیں ۔ ہمارے ذہنوں سے ان کے نام محو نہیں ہوتے ۔ بہت سے ایسے ہیں جو اب ہمارے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں ۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ان کا نام کئی بار ہماری زبانوں پر آتا ہے ،