کچھ تو ہم بھی عزم کریں



منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
          منیر نیازی مرحوم کا یہ شعر زبانوں پر چڑھ کر بہت پامال ہوچکا ہے مگر اس ملک کی حالت زار دیکھ کر ہمیشہ یاد بھی آتا ہے ۔ ساٹھ سے چند زائد برس ہوئے جب اس قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی ، علماءنے قربانیاں دیں ، مسلم لیگ کو مسلمانوں نے بھرپورسپورٹ کیا تو ایک ملک بنا۔ آج وہ ملک ڈھونڈرہا ہے اس قوم کو جس نے اسے دریافت کیا تھا ، جس نے اس کی تخلیق کا نقشہ مرتب کیا اور جس نے اس نقشے میںلہو سے رنگ بھرنے کے لیے اپنا جگر نچوڑ ا ۔ آج بھی ایسے لوگ بقید حیات ہیں جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کیا اور جنہوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کرکے بالکل تہی دامنی اور بے سروسامانی میںاس سرزمین پر قدم رکھا ۔ وہ واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس قدر وحشت ، خوف اور ظلم وستم کاانسان صرف تصور ہی کرسکتا ہے ۔فرصت ملے تو معروف بیوروکریٹ اور شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب کا ناول یاخدا “ ضرور پڑھیے ۔
کہنے کو یہ ایک ناول ہے مگر بقول مصنف اس میں صرف نام فرضی ڈالے گئے ہیں ، اس کے کردار اور واقعات بالکل حقیقی ہیں ۔ معروف دانشور متین الرحمن مرتضی کی مختصر سے آپ بیتی ”میں نے پاکستان بنتے دیکھا“بھی اس سلسلے میں پڑھنے کی چیز ہے ۔ مگر پھر صرف ساٹھ سال کے عرصے میں سب کچھ بدل کر رہ گیا ۔ جس قوم نے عزم وہمت سے دو بڑی طاقتوں انگریز اور ہندو کو شکست سے دوچار کیا تھا آج خود حیرت زدہ وسرگرداں کھڑی ہے ۔ شیخ سعدی کے بقول اس بچے کی طرح بھرے میلے میں جس کے ہاتھ سے اپنے والد کا دامن چھوٹ جائے ۔ یہ سہمی ہوئی قوم پریشان وسرگردان کھڑی ہے کہ تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر جہاں ملک کے ہر چوراہے پر خون کے دریا بہہ رہے ہیں ،مہنگائی ، بیروز گاری، کرپشن ، بدامنی اور اس طرح دیگر مشکلات پہاڑوں کی طرح رکاوٹیں بنی کھڑی ہیں ،خون کے اس دریا اور پہاڑ جیسے ان بڑے مشکلات کو اس قوم نے پار بھی کرنا ہے ،مگر اب کوئی مسیحا نہیں جو آکر اس کا ہاتھ تھامے اورتاریخ کے اس مشکل ترین دور سے اسے پار لے جائے ۔ لیڈر اتنے ہیں کہ ہر پتھر کے نیچے مکوڑوں کی طرح ہزار ہزار رینگتے نظر آئیں پر جس قائد کی اس ملک کو ضرورت ہے وہ خورد بین سے دیکھنے کو بھی نہیں ملتا ۔ کہتے ہیں مایوسی اور بے دلی انسان کو بے وقوف اوربزدل بنادیتی ہے ۔مایوس شخص کو جہاں بھی جیسے بھی کوئی سراب نظر آجائے وہ حقیقت سمجھ کر اس کا پیچھا کرنے لگتا ہے جو کوئی بہروپیا چند مقفی ومسجع الفاظ جوڑ کر اسے لوٹنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے دام میں انتہائی آسانی سے پھنس جاتا ہے ۔ کل یہاں انقلاب کا نعرہ لگانے والا ایک شخص اٹھا ، انصاف کے نعرے کو جس نے اپنا ہتھیار اور بدزبانی کو جس نے اپنا شعار بنایا ۔ روایتی لڑاکا عورتوں کی طرح گرجتا برستا اور تیز وتند بدکلامیاں کرنے والا وہ شخص اٹھ کر مینار پاکستان آیا ، وہاں سے چلا توسیدھا کراچی مزار قائد پہنچا وہاں سے نکلا تو کوئٹہ پہنچا ۔ جہاں جہاں گیاتھیٹر سجایا ، گویوں کو جمع کیا ، نوجوانوں کو گرجتی موسیقی کی تھاپ پر خوب رقصایا اور پھر چلتابنا ۔ سادہ دل قوم انقلاب کا ایک پرجوش عزم لیے اس کے پیچھے چلتی رہی پھر مگر نجانے کیا ہوا آج کل اس کا سکہ بیٹھ گیا ہے ۔ اب نہ وہ تھیٹر ہے نہ وہ رقص ، نہ وہ انقلاب کا نعرہ رندانہ ، بس ہلکی سی کسک سنائی دیتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھی ۔ یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے اب چند دن پہلے کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ۔ ایک شخص کینیڈا سے امپورٹ ہوا وہ بھی سب سے پہلے مینار پاکستان پہنچا ۔تقریبا آدھا دن خوب گرجا برسا ،ہر ایک کو بے نقط سنائیں نجانے کیا کہتا تھا مگر سیاست وریاست کے الفاظ کا تکر ار اس کی زبان پر بہت تھا۔ پھر ایک دن وہ نکلا ہزاروں انسانوں کا لشکر جرار لے کر ۔ دارالحکومت کی سڑکوں پر گویا تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا۔ بم پروف کنٹینر میں پیک چالیس ہزار انسانوں کے بیچ جب وہ روانہ ہوا تو اس سادہ لوح قوم نے قوی امیدیں باندھ لیں کہ اب تو کچھ ہو کر ہی رہے گا مگر پھر کچھ بھی نہ ہوا ۔ تین دن کی سردی اور بارش کے بعد چالیس ہزارخواتین ، بچے ، بوڑھے اورجوان وکٹری کا نشان بناتے ہوئے گھروں کو لوٹے پر وکٹری میں کیا پایا اس کا کسی کو پتہ نہیں ۔ اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔قوم پھر اپنی پرانی حالت پر کھڑی ہے، منتظر ہے کہ کب کوئی اور بہروپیا چہرہ بدل کر آئے ، کروڑوں کا چندہ لے کر غائب ہوجائے ۔
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ
اب اور بھی نجانے کتنے بہروپیوں سے لٹ جانا اس قوم کی قسمت میں لکھا ہے اور نجانے کب تک یہ قوم یوں ہی لٹتی رہے ۔ اور ایک بات طے ہے کہ جب تک اس قوم کو دوسروں سے امیدیں باندھنے کی عادت ہوگی تب تک سب کچھ ایسا ہی رہے گا ۔ اقبال نے کہا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو احساس جس کو آپ اپنی حالت بدلنے کا
طولانی کلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ2013ءکے انتخابات سرپر ہیں۔ ہر لیڈر ایک نئے وعدے اور لیبل کے ساتھ آپ کے دروازے پر کھڑا ہے ۔ قسمیں ، وعدے اور لالچ دے دیکر آپ سے وعدے لے رہا ہے کہ آپ کے ووٹ کا صرف وہی حقدار ہے مگر میری قوم خدارا پھر سے 5سال کے لیے کوئی نیا بہروپیا ، نیا چور ، نیا دغا باز خود پر مسلط نہ کرو ۔ ایک ووٹ کا غلط استعمال اگلے پانچ سال کے لیے مہنگا ئی ، بدامنی ، سیکولرازم اور معاشی زوال کا ایک نیا طوفان آپ پر مسلط کردے گا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں