جرم ضعیفی


اقبال نے ایک لافانی مصرعہ کہا تھا :
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
 برما کے مظلوم مسلمانوں کا بھی اس کے علاوہ کوئی قصور نہیں کہ وہ اپنے خطے میں کمزور تھے۔ طاقت اور اسلحہ ان کے پاس نہیں تھا ۔ سیاسی لحاظ سے انہیں مضبوط ہونے نہیں دیا گیا تھا ،اور ستم تو یہ کہ وہ لوگ جن کی گذشتہ تین نسلیں بودھسٹوں کی رحم وکرم پر ہیں اور صبح شام ان کے مظالم سہہ رہے ہیں ایسے خطے کے بارے میں مکمل معلومات آج تک دنیا کے مسلمانوں کو نہیں پہنچیں ۔ اظہار رائے کی آزادی جو اس جمہوری دور میں ہر انسان کا بنیادی حق ہے برما کے مسلمانوں کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مظلومیت کی تاریخ سے تفصیلی طور پر آج تک ہم ناواقف ہیں ۔ ہمیں خبر نہیں کہ کس دور میں کون کون سے مظالم کے پہاڑ تھے جو ان مسلمانوں پر ڈھائے گئے ۔ برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے عالمی میڈیا کی بے خبری کی وجہ سے کافی عرصے تک تو اس قضیے کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی اور پھر جب بعض آزاد ذرائع نے سوشل میڈیا پر مظلوم برمیوں کی تصاویر شائع کیں
تو برمی حکومت نے ان تصاویر کو جعلی قراردیا اور کہا کہ یہ تصاویر ہند چینی ممالک کے سیلابوں میں ہلاک ہونے والے مصیبت زدگان کی ہیں جس سے اب مسلمان سیاسی فائدے اٹھاناچاہتے ہیں ۔ اب بھی برما کی حکومت اس مسئلے کو مسلم وغیر مسلم کی بجائے لسانی جنگ قرار دے رہی ہے ۔ جس کا اندازہ بعض عالمی میڈیا کی رپورٹوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔
برمی مسلمان تعداد کے اعتبار سے ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں جن کی آبادی ملک کی کل آبادی کا قریبا چار سے 5 فی صد ہے ، یہ زیادہ تر سنی ہیں ۔ برما کی تاریخ مسلم اقلیت پر توڑے گئے ظلم کے پہاڑ سے خوں رنگ ہے ، اس صورت حال کو عالمی پریس
slow-burning genocide یا مسلمانوں کی بتدریج نسل کشی قرار دے چکا ہے ۔ آج کل اس خوں چکاں تاریخ کا ایک اور سیاہ باب رقم کیا جا رہا ہے ۔
برما کی خون خوار اکثریت (بدھ مت سے تعلق رکھنے والے راکھائن افراد ) کی جانب سے مسلم مخالف تشدد اور نسل کشی کے حالیہ واقعات میں برما کے صوبائی دارالحکومت اکیاب کی تمام مسلم بستیاں مکمل طور پرجلا دی گئی ہیں جب کہ مجموعی طور پر ملک میں پانچ سو سے زائد مسلم محلوں اور بستیوں بشمول مساجد کو جلا کر تباہ کر دیا گیا ہے ۔ اس ظلم وستم کے دوران پانچ ہزار سے زائد مسلمان شہید کر دئیے گئے ہیں اور مسلم خواتین کی نعشوں کی بے حرمتی کی گئی ہے ، ان مسلم کش فسادات کے دوران 30 ہزار افراد جان کے خوف سے بے گھر ہو کر بھٹکنے پر مجبور ہو گئے ہیں ، فسادیوں سے بچ نکلنے والے افرادخوراک اور پناہ سے محروم ہونے کی وجہ سے غذائی کمی اور موسم کی شدت کا شکار بن سکتے ہیں ۔
روہنگیا مسلم مہاجرین کی بڑی تعدا د نے پناہ کے لیے قریبی مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کا رخ کیا لیکن بنگلہ دیشی سرحدی فورسز اور کوسٹ گارڈز نے ان کو واپس دھکیل دیا ۔ اب یہ بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے پڑ ے ہیں۔اب صورت حال اتنی گھمبیر ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ نے راکھائن نامی ریاست میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے جب کہ موتمر عالم اسلامی نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل سن 2009 میں اسی قسم کے واقعات کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد برباد ہوئی تھی ، ایک رپورٹ کے مطابق ان فسادات کے بعد 22 لاکھ افراد کو پناہ گزینی کی زندگی اختیار کرنا پڑی اور 40 ہزار روہنگیا مسلم بچے جبری مزدوری پر مجبور کر دئیے گئے تھے ۔ مسلمانوں کی نسل کو ختم کرنے والے فسادی آزاد ہیں جب کہ مسلمان جوڑے شادی کے لیے بھی حکومتی اجازت کے محتاج ہیں ،پکے گھروں کی تعمیر یا مرمت کے کسی کام کی ان کو اجازت نہیں، مسلمانوں کو بنا اجازت اپنی بستی اور علاقہ چھوڑ کر جانے پر پابندی ہے ان سب اقدامات کا مقصد ان مسلمانوںکو ترنوالہ بنانا ہے۔
اس خوف ناک صورت حال میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور میڈیا کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار اور میڈیا پر قابض طبقہ مسلم اخوت کا کتنا احساس اور مسلمانوں کے معاملات کا کتنا درد رکھتا ہے۔ اس جرم میں اسلامی دنیا اور اس کے میڈیا پاور سب کے سب برابرکے شریک ہیں ۔ برما کے عظیم سانحے کو اب دومہینے ہونے کو ہیں لیکن اب تک نہ اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر کوئی قابل ذکر آواز اٹھائی گئی ہے اور نہ ہی امن وآشتی کے علمبر دار عالمی قوتوں نے اس پر کوئی صدابلندکی ہے ۔اگر اس طرح کا واقعہ کسی مسلم ملک میں پیش آتا ، کسی مسلم اکثریت علاقے میں کسی غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ، دومہینے سے جاری رہنے والے اس قتل وخون کا یہ بازاران پر گرم رہتا، پاکستان کے دیہاتوں میں مقیم ہندؤوں کی بستیا ں اجاڑدی جاتیں ، ان کے گھروں کو جلادیا جاتا ، ان کی خواتین کی عصمت دری کی جاتی ، ان کے گاؤں کے گاؤں جلادیے جاتے ، 20ہزار ہلاک اور اتنے ہی بے گھر ہوجاتے ، پیادہ پا دوڑتے دوڑتے پڑوس ملک کی سرحد پر پہنچتے اور راستہ نہ ملنے پر وہیں پڑے رہ جاتے ۔ موسم کی شدت ،بھوک اور پیاس کا عفریت ایک الگ مصیبت بن کر ان کے سر پر کھڑا ہوجا تا ، تو ذرا تصور کیجیے عالمی میڈیامیں کیا صورتحا ل ہوتی ۔ کتنے بڑے بڑے میڈیا چینل ، میڈیاپرسن ، رپورٹر اور کیمرہ مین اب وہاں پہنچ چکے ہوتے ۔ پیش آنے والے واقعے کی کتنے زاویوں سے ویڈیوزاور تصاویر بنائی جاچکی ہوتیں ۔ کتنے شوزہوچکے ہوتے ، کتنی ڈاکو مینٹریزبن چکی ہوتیں ، اداس میوزک کے ساتھ دکھا دکھا کر ان مظلوموں کو دس گنا زیادہ مقہور ومصیبت زدہ دکھا یا جاتا ۔ این جی اوز کی قطاریں لگ جاتیں ، امریکہ ، فرانس ، یورپ اور برطانیہ سے لے کر پاکستان تک امدادی ٹیموں کی لائنیں لگ جاتیں ، امدادی سامان سے بھرے پرے جہاز پاکستان کی ائیر پورٹوں پر اتر تے ،متاثرہ علاقے میں راشن کی فراہمی ، نئے گھروں کی تعمیر اور صحت کی بڑی سکیمیں چلتیں اور دیکھتے دیکھتے علاقے کی تقدیر بدل جاتی ۔ پاکستانی مسلمانوں کو دہشت گر د ، بنیاد پرست اور نجانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ۔ پاکستان کی حکومت پوری دنیامیں منہ چھپائے پھرتی ، عالمی سطح پر پاکستان کے لیے کتنے مشکلات پیداہوجاتیں۔ کم ازکم دنیا بھر کے ممالک میں پاکستانی سفراء کی وزارت خارجہ طلبی ہوتی ، اقوام متحدہ پاکستان سے آئند ہ ایسا نہ ہونے کی ضمانت مانگتا ، متاثرہ علاقے کے علاوہ پورے ملک میں ہندو کمیونٹی کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ۔ اور ممکن تھا کہ ہندوکمیونٹی کو متاثرہ علاقہ الاٹ کردیا جاتا ۔ اگر یہ واقعہ پاکستان میں ہوجاتا اور اس کا یہ ردعمل پوری دنیا میں آتا تب توہر ایک کہتاکہ یہ عین انصاف ہے ۔ پاکستان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ، یہاں کے مظلوموں کی ایسی ہی مدد کی جانی چاہیے تھی اور پاکستانی مسلمان دہشت گرد اور انتہاپسند سے زیادہ کسی اور ہی برے الفاظ کے ساتھ ذکر کیے جانے کے مستحق ہیں ،مگریہ واقعہ تو برما میں پیش آیا ، اقوام متحدہ، امریکہ ، یورپ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں دوماہ گذرنے کے بعد بھی سب لب سیے بیٹھی ہیں ۔ادھر اسلامی دنیا کو بھی کچھ کرگذرنے کی تو رہی ایک طرف کچھ کہنے کی بھی توفیق نہیں مل رہی ۔ اب کے دو ماہ بعداو آئی سی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے ، تقریبا ایک ماہ بعد اسلامی سربراہی کانفرنس بھی ہونے والی ہے ۔ اس سے قبل بھی انتہائی اہم مسائل پر او، آئی،سی اوراسلامی سربراہی کانفر نسوں کا انعقاد ہوچکاہے مگراس کا کوئی خاص ثمرہ نظر نہیں آیا ۔اب کی بار بھی ہمیں کوئی خاص توقع نہیں مگر امید لگانے میں کیاحرج ہے ۔ او، آئی ، سی جس میں معاشی اور عسکری لحاظ سے انتہائی اہم ممالک شامل ہیں کو اپنا وجود ثابت کرنے کےلیے کم از کم اس بار کوئی مثبت قدم اٹھانا چاہیے اور برما کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے کوئی مضبوط آواز اٹھانی چاہیے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں