فلسطین کی ملالہ


  دھویں ، آگ اور بارود کے خون آلود کہر میں لپٹے غزہ شہر کی سرحد پرایک سکول ہے ، اقوام متحدہ کا تعمیر کردہ ، مگر یہاں اب علم کی شمع فروزاں نہیں رہتی ۔ یہ اب غزہ کے مکینوں کے لیے جائے پناہ کا کام دیتا ہے جن کے گھراسرائیلی بمباری میں ملبوں کے ڈھیر بنادیے گئے ۔ یہاں ایک ہی عمارت میں کئی خاندان پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ایسے ہی ایک پناہ گزین خاندان کی ایک تیرہ سالہ لڑکی نے بی بی سی کے ایک صحافی کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک پرزہ تھمایا۔
یہ کاغذ کا پرزہ ایک بسکٹ کے ڈبے سے پھاڑ کر حاصل کیا گیا تھا اور اس میں ایک املا کی غلطی کے ساتھ یہ تحریر تھا:میں امید کرتی ہوں کہ جنگ رک جائے گی۔میں ایک خوشحال زندگی جینے کی تمنا رکھتی ہوں،میں تا حیات امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ ہیپی ڈریم۔
یہ تو بدھ کے روز شام کو ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے سے قبل کی کہانی تھی مگر کیا اس جنگ بندی سے غزہ کی تاحیات خوشیاں لوٹ آئیں گی؟ اس سوال کا جواب شاید نفی میں ہے کیوں کہ اس طرح کے معاہدے ماضی میں بھی کئی مرتبہ اسرائیلی جارحیت کے بعد ہوچکے ہیں ۔ حماس اور اسرائیل ہمیشہ سے حالت جنگ میں رہے ہیں،کبھی سرد جنگ اور کبھی ننگی جارحیت۔ 2007ء میں حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا ، تب سے اب تک اگرچہ حماس نے اسرائیل کے خلاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی مگرحالیہ معاہدے نے بھی ثابت کردیا ہے کہ حماس کوفتح کرنا اسرائیل کے لیے کوئی آسان ہدف نہیں ۔ یوں تو اس معاہدے سے زیادہ توقعات نہیں ہیں کیوں کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے معاہدے کے دستخط کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ:" حماس کو خوش نہیں ہونا چاہیے کہ معاہدہ کرکے انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے کیوں کہ ایسے حملے پہلے بھی ہوچکے ہیں اور بعد میں بھی ہوسکتے ہیں "۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے 2013ء میں اسرائیلی وزیراعظم نے اپنا اگلا انتخاب لڑنا ہے اس لیے انہوں نے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یہ بھی سوچا ہوگا کہ صہیونیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسے اگلا حملہ کب کرنا ہے" ۔
جنگ بندی اور حتمی جنگ بندی ہی مسئلے کا حل ہے مگر جو معاہدہ اب ہوا اس سے زیادہ توقع اس لیے بھی نہیں رکھی جاسکتی کہ اسرائیل نے اس سے قبل 2006، 2008اور 2009 کو بھی غزہ پر جارحیت کی تھی اس وقت بھی ایسی جنگ بندیاں ہوئی ہیں مگر اسرائیل نے ہمیشہ معاہدہ شکنی کرکے حماس کے مخصوص افراد کو نشانہ بنانے کی بجائے عوام پر اندھا دھند بمباری کی ۔ اور اسرائیل کا ہمیشہ سے یہ دعوی ہے کہ ''اس کی دفاع کے لیے غزہ پر حملہ واحد حل ہےــ'' ۔
مصری صدر کا کردار قابل ستائش ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے جنگ بندی ہونے تک مسلسل اپنا کردار اداکیا ۔ اگر چہ تجزیہ کاروں نے اس امکان کو رد نہیں کیا ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ کے کہنے پر ہوا ہے اور مصری صدر امریکہ کے کہنے پر ہی حماس کو مذاکرات کی میز تک لایا ہے جس کا واضح ثبوت ان کے ہاں معاہدے کے اعلان کے وقت مصری وزیرخارجہ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ کی موجود گی بھی ہے ۔ مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر یہ جنگ بندی نہ ہوتی اور اسرائیلی حملوں کو اور زیادہ طول ملتا توحسب سابق اس بار بھی فلسطینی شہداء کی تعداد کئی سو تک پہنچ جاتی ۔ مصری صدر کو اس بات کا کریڈٹ دیے جانا چاہیے کہ ان کی کوششوں سے سینکڑوں جانیں محفوظ ہوگئی ہیں ۔
اب کی بار تو محمد مرسی کی کوششوں سے خداخدا کرکے اسرائیل کے دماغ سے جنگی بھوت اترا ہے مگر یہ معاہدہ کچے دھاگے سے بندھی ہوئی گٹھڑی ہے ۔ کسی بھی وقت اسرائیل کا جنگی جنون اس کے دماغ پر چڑھ سکتا ہے اور یہ کچا دھاگہ ٹوٹ سکتا ہے اس لیے غزہ کے مسئلے کا پائیدار حل ضروری ہے ۔ اقوام متحدہ کو اپنی حیثیت کو سامنے رکھ کرغزہ ایسے متنازع مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے ۔ اورعالمی قوتوں کا بھانپو بننے کی بجائے اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور اسرائیل کو اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے ۔ کیوں کہ بدھ کے روز ہونے والے معاہدے کے بعد اسرائیل فوجیوں نے23 نومبرکو جمعے کے روز غزہ کے سرحد پر فائرنگ کرکے ایک بیگناہ شخص کو شہید کردیا ہے ۔ عینی شاہدین کے کہنا کہ یہ کسان تھے جن پر اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے ایک کو شہید اور تقریبا 20کو زخمی کردیا ۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایسے واقعات کا ظہور کس بات کا پیش خیمہ ہے ؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل کو دنیا کے کسی اصول یا قانون کا پاس نہیں ۔
آخر غزہ کے 17لاکھ عوام کو بھی زندگی کا حق ہے ۔ انہیں بھی اس دنیا میں جینا اور رہنا ہے ۔ تعلیم ، صحت ،خوشحال معاشی مستقبل ، پرامن زندگی اور ترقی یافتہ قوم بننے کا خواب ان کا بھی بنیادی حق ہے ۔ فلسطین کے معصوم بچوں کو بھی قلم اور کتاب سے آشنا ہونے کا حق ہے ۔ فلسطین کی اس گمنام تیرہ سالہ ملالہ کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے بستے میں کتابیں لے کر سکول جائے اور اطمینان سے واپس گھر لوٹے ، کوئی ان پر بمباری کرنے والا نہ ہو ۔ کوئی اس کے سکو ل کو پناہ گزین کیمپ بنانے والا نہ ہو۔
اقوام متحدہ نے ملالہ ڈے مناکر جس طرح ساری دنیا میں پاکستانی ملالہ کو خراج تحسین پیش کیا ، اور مغربی پریس نے ملالہ کو جتنا مظلومیت کا استعارہ بناکر پیش کیا انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ فلسطین کے ان گمنام ملالاؤں کے لیے بھی اتنی ہی قوت سے آواز اٹھائی جائے ، اقوام متحدہ عالمی سطح پر غزہ کا مقدمہ پیش کرے اور عالمی طاقتوں کومسئلے کی نزاکت کا احساس دلائے ، اور غزہ کے مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرے ۔ مگر . . . . . . . شاید ایسا نہ ہوسکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں