عبدالقادرملا کی شہادت ......... القاعدہ کی اخلاقی فتح

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ عبدالقادر ملاکو اسلام سے محبت کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی ۔ان کی تدفین کے بعد پورے بنگلہ دیش میں پرتشدد ہنگاموں کا آغاز ہوگیا ۔ ان مظاہروں میں اب تک 24 افراد جان بحق ہوچکے ہیں ۔ عبدالقادر ملاکوجس طرح مجرم ثابت کیا گیا پھر انہیں عمر قید کی سزاسنائی گئی اور جس طرح عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل دیا گیا کوئی بھی صاحب عقل اس کا انکار نہیں کر سکتاکہ یہ سب ایک ڈرامائی پروگرام تھا۔ چارعشرے بعد کسی شخص کو آنا فانا مجرم بنانا اور عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل کر سولی پر چڑھا دینا یہ کہاں کی دانشمندی ہے ؟ انصاف کے کونسے تقاضے تھے جن کے باعث یہ اقدام کیا گیا ؟ اس پر مستزاد عالمی میڈیا کا افسوسناک رویہ ہے جس سے بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر کے اسلام پسند عوام کے دلوں کو دکھ پہنچا ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹیں ملاحظہ کریں ہر سطر میں عبدالقادر ملا کو ایک مجرم اور اس کے رد عمل میں ہونے والے ہنگاموں کو خون خرابے سے تعبیر کیا گیاہے اور لوگوں کے اشتعال کو انتقامی کارروائی قراردیاگیاہے ۔

جماعت اسلامی ایک سیاسی تنظیم ہے جو جمہوری عمل کے ذریعے بنگلہ دیش میں اسلام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے ۔ عبدالقادر ملا نے اہلخانہ کے نام آخری پیغام میں بھی یہی کہا کہ’’ میں معصوم ہوں ، اب ہماری ملاقات جنت میں ہوگی ۔ کارکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں ، ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک میں اسلامی نظام کے لیے کوششیں کریں ‘‘۔ اور یہ صرف اسلام نہیں دنیا بھر میں کیپٹل ازم ہو یا سوشلزم ہر نظریے کے پرچار کے لیے کوئی نہ کوئی سیاسی ، سماجی ، ادبی یا رفاہی تنظیم کام کررہی ہے اور کسی جمہوری ملک میں یہ عوام کا بنیادی حق ہے ۔ اس حق سے کوئی انہیں دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا ۔ جو بھی قوت ایسا کوئی ظالمانہ اقدام اٹھائے گی تو اس کے نتائج اس سے بھی بھیانک ہوں گے ۔ ظلم اور تشدد کے مقابلے میں تشدد کو ہی فروغ ملے گا ۔ شدت پسندی ہی کو عروج ملے گا ۔ اور پھر وہ لوگ جو کبھی جمہوریت کے پلیٹ فارم سے اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے تھے مجبورا بزور بازو اپنا حق چھیننا شروع کردیں گے ۔
عالمی افق پر نظر دوڑائیں تو دنیا اس وقت اسلام پسند اور لبرل سیکولر کے درمیان تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے ۔ اور تقسیم کی یہ خلیج روز بروز وسیع ہوتی جارہی ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں میں مغربی تشدد پسندی کے خلاف مسلح جد وجہد کی جانب رجحان بڑھ رہا ہے ۔ القاعدہ جو طالبان کے دور میں افغانستان کے تورہ بورہ کے غاروں میں بند ایک مسلح تنظیم کا نام تھا آج مشرق اوسط سے لے براعظم افریقا اور جنوبی ایشیا تک پھیلی ہوئی ایک عالمی تنظیم بن چکی ہے ۔ جس میں عربوں کے علاوہ یورپین اور ایشیائی لوگ بھی شامل ہیں ۔ القاعدہ کو یہ عروج 2001کے بعد ملا جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا ۔ دنیا میں القاعدہ کے خیالات اور مسلح طریقہ کارعام ہونے کا اصل باعث افغانستان پر امریکی جارحیت تھی ۔ مسلمان نوجوانوں میں شدت پسندی کا عنصر اس وقت اورزیادہ تیز ہوا جب امریکا نے عراق پر حملہ کردیا ۔ امریکی حملے میں صدام انتظامیہ ختم ہوگئی اور عراقی حکومت میں افراتفری اور بدانتظامی پھیل گئی جس کی وجہ سے القاعدہ کو عراق میں گھسنے اور وہاں قدم جمانے کا موقع ملا۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد عراق ہی القاعدہ کا سب سے محفوظ ٹھکانہ بن گیا ۔ یہیں سے القاعدہ نے امریکا کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا ۔ مسلم دنیا میں القاعدہ کے لیڈر اسی عراق جنگ کے بعد ہیروز کے طورپر ابھرے ۔ القاعدہ نے عراق میں امریکا کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد اپنے پر پھیلائے ۔ آ ج دنیا بھر کے مختلف خطوں میں وہیں کے رنگ ونسل کے اعتبار سے القاعدہ کے مختلف ورژن موجود ہیں ۔ کہیں القاعدہ کے نام سے اور کہیں کسی اور مقامی نام سے تنظمیں بنائی گئی ہیں جو القاعدہ کے افکار اور خیالات لے کر کام کررہی ہیں ۔
مسلح جد وجہد کی جانب رجحان کی اصل وجہ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب انتہائی سادہ اور آسان ہے کہ کسی کو دیوار سے لگانے کا مطلب اس کو چاروں جانب سے مایوس کردینا ہے ۔ امریکا کا یہی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے آ ج بہت سے لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ امریکا مسلمانوں کے جائز حقوق یا مطالبات سننے کے لیے بھی تیار نہیں اس لیے اقوام یا امریکا سے کوئی امید لگانا خود فریبی کے مترادف ہے ۔ اور وار آن ٹیرر کا مقصد دہشت گردی نہیں اسلام کو مٹانا ہے ۔ اور یہی القاعدہ کی کامیابی ہے کہ وہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب ہورہا ہے کہ امریکا اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے ۔
القاعدہ کے مقابلے میں بہت سی ایسی عالمی اسلامی تحریکیں ہیں جو مختلف خطوں میں ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے پر امن جد وجہد کرکے اسلامی نظام خلافت کے احیاء اور اسلام کی اشاعت کے لیے کام کررہی ہیں۔ یہ تنظیمیں مختلف پابندیوں اور تکالیف کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ مایوسی کی گھاٹی میں گرنے کی بجائے وہ آہستہ آہستہ سہی مگر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ۔ القاعدہ کے افکار کے مخالف قوتوں کو مسلمان عوام کے ان پر امن کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ان سے ڈائیلاگ کرکے ان کے مطالبات تسلیم کرنے چاہییں اور جو مینڈیٹ انہیں عوام نے دیاہے یا عوام میں جتنی ان کی حمایت موجود ہے اس کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنا جائز حق دے دینا چاہیے ۔ مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا ۔ دنیا بھرمیں پرامن اسلامی تحریکوں اور اسلامی شخصیات کو ہر جگہ ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ان کے اس پرامن رویے کی ناقدری کی جارہی ہے ۔ مصر میں محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد شاید کسی کو اب اس بات کا یقین کرنا مشکل ہوجائے کہ اسلامی ممالک میں اسلامی نظام کا احیاء جمہوری عمل کے ذریعے ممکن ہے ۔ پاکستان میں جس طرح سے ہربار انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو مختلف مشکلات میں الجھادیا جاتا ہے اور انتخابات میں آگے آنے نہیں دیا جاتا یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ ترکی میں بھی کچھ عرصہ قبل طیب اردوان کی منتخب حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو بعد میں اللہ کے فضل سے ختم ہوگیا ۔ فلسطین میں عوام کی حقیقی نمائندہ تنظیم حماس کی عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا گیا ۔ اور اب بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل بنگلہ جماعت اسلامی کے عام کارکنوں کو قتل کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس قتل عام میں مبینہ طورپرپولیس اور سیکولر حکمران جماعت کے کارکن برابر کے شریک تھے ۔

عوامی نمائندگی کا حق چھین کر مظالم کا شکار بنانے کا یہ سلسلہ دراصل القاعدہ کی اخلاقی فتح ہے ۔ جمہوری سیاسی تحریکوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو القاعدہ آج جتنا پھیل چکی ہے اس سے زیادہ مقبول ہو جائے گی ۔مسلم دنیا میں القاعدہ کا یہ نعرہ اور بھی مقبول ہوجائے گا کہ جمہوری عمل میں حصہ لے کر حقوق حاصل کرنے کی بات کرنا خود فریبی اور بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ مسلم دنیا کے پرامن نوجوانوں کو دیوار سے لگانے کا نتیجہ بہت بھیانک ہوگا ۔ اس سے پہلے کہ عوامی جذبات میں تلاطم پیدا ہوعالمی قوتوں کو اس صورتحال پر غورکرنا چاہیے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں