اسلامی خلافت اور تھیوکریسی



پاپائیت کے اندھیر  سے نکلنے کے بعد یورپ کے سامنے سیکولر جمہوریت ہی ایک واضح نظام حکومت تھا ۔ جسے ہر مغربی قوت نے اپنی مرضی کے مطابق تراش کر اپنی مرضی کے مطابق اپنایا۔ مغرب نے اس نظام کو اپنانے کے بعد اسے تقدس کے اس سنگھاسن پر بٹھا یا کہ اب اس کے خلاف بات کرنا گویا انسانیت کے خلاف بات کرناہے ۔ حالانکہ یہ بھی ایک نظام ہے اور انسانوں کا بنایا ہوا نظام ۔ اس میں ہزار خامیوں اور برائیوں کا امکان ہوسکتا ہے۔ مگر چونکہ یہ مغرب کا پسند کیا ہوا نظام ہے اس لیے اس پر تنقید کا حق بھی انہیں کے ہاں محفوظ ہے ۔ اب دنیا میں ہر نظام کو پرکھنے کا معیار جمہوریت ہی ٹھہر گیا ۔ جمہوریت کا چشمہ پہن کر ہر نظام پر تنقیدی نگاہ ڈالی جاتی ہے ۔ حالانکہ ہرنظام اپنے اندر خصوصیات رکھتاہے ۔ ٹھیک ہے بظاہر جمہوریت میں عوام کو حق حکومت دیا جاتا ہے مگر اس کی خامیاں بھی تو الاماں الحفیظ ۔ اسلامی نظام خلافت انسانی تاریخ کا وہ نظام ہے جس نے بادشاہت اور حکمرانی کا انداز بدل رکھ دیا ۔ عوام کا خادم ہر حاکم خود کو کہتا ہے مگر حقیقی طورپر جس نے عوام کا خادم بن کر دکھایا ۔ انسانیت کو بادشاہت کا ایک نیا رخ متعارف کروایا ۔ بادشاہوں اور اہل اقتدار کو عوام کی حقیقی خدمت کا طریقہ سکھایا ۔
بے شماریوں دیگر خوبیوں کے ساتھ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نظام میں رعب داب اور ہٹو بچو کا کوئی طرز عمل نظر نہیں آتا ۔ جس طرح اسلام کی ہر خصوصیت کو مغرب کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے اسی طرح   اسلامی نظام خلافت  کو بھی بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے ۔ ان الزامات میں سے ایک بڑا الزام یہ ہے کہ اسلام کا نظام خلافت تھیوکریسی پر مبنی ہے ۔ تھیوکریسی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے اور کیا واقعی اسلامی نظام خلافت تھیوکریسی پرقائم ہے ؟ ان سارے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے تھیوکریسی کی تحقیق کرنی ہوگی ۔ تاریخی اعتبارسے اس اصطلاح کے معنی ہے ہی کیا ؟ تھیوکریسی کا جب معنی بتایا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے اس کے معنی ہے مذہبی حکومت ، ایسی حکومت جو مذہب کا پابند ہو ۔ مغربی مستشرقین ہمیشہ اسلامی نظام خلافت پر تنقید کرنے کے لیے اسی تشریح کا سہارا لے کر عوام کے ذہنوں میں خلافت کا مفہوم ایک گھٹن زدہ ماحول میں قائم ہونے والے نظام حکومت کی حثیت سے بٹھاتے ہیں  ۔ کیوں کہ تھیوکریسی کا لفظ سن کر یورپ کا وہ تاریک دور ذہن میں آتا ہے جب یورپ کے سیاسی نظام پر پاپائیت سوار تھی اور پادریوں کے تاریک ذہنوں نے انسانیت کو اپنے فطری ارتقاء سے روک رکھا تھا ۔ عیسائی عوام نے پاپائیت سے بغاوت بھی اسی لیے کی کہ جب انہوں نےباہرکی دنیا میں دیکھا کہ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں روز بروز آگے بڑھ رہا ہے ۔ علم وفن کے نئے در اس کے سامنے کھل رہے ہیں اور وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو منکشف کررہا ہے ۔ خصوصا اسلامی دنیا میں بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم ہیں اور اسلامی ممالک کے علم دوست حکمران علماء کی سرپرستی کرکے مختلف علوم وفنون کو پروان چڑھارہے ہیں ۔ ایسے میں صدیوں تک اسلامی دنیا کو علوم وفنون میں آگے بڑھتا دیکھ کر عیسائیت میں بھی بیداری کی رمق پیداہوئی ۔ پاپائیت کو اپنا اقتدار عزیز تھا اس لیے کلیسا نے بدعت کا فتوی دے کر ہمیشہ علوم وفنون کی حوصلہ شکنی کی ۔ عیسائیت کے علم دوست حلقوں نے ہمیشہ پوپ کے دباو پر علوم کے حصول سے احتراز کیے رکھا مگر اب اس کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہوگیا اور اس نے پوپ سے بغاوت کردی ۔  سیاسی اقتدار پوپ سے الگ کرکے سیاست کو سیکولر بنادیا گیا اور پوپ کو مذہبی اقتدارتک محدود کردیا گیا ۔ پوپ کو چونکہ بہرحال اقتدار عزیز تھا اس لیے ویٹی کن سٹی کے نام سے ایک سلطنت بناکرپوپ کو الاٹ کردی گئی ۔ یوں ساری عیسائی دنیا نے ویٹی کن کے بوتل میں بند اس عفریت سے نجات حاصل کرلی ۔
تھیوکریسی کالفظ سن کر دراصل پوپ کے اقتدار کا وہ زمانہ ذہن میں آتا ہے جس کا خلاصہ اوپر کے سطورمیں ذکرکیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے اسلامی نظام خلافت کو تھیوکریسی کہہ کر لوگوں کے ذہنوں میں اس کا غلط تصور بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تھیوکریسی درحقیقت ہے ہی کیا؟ تفصیلی انداز سےواقفیت حاصل کرنے کے لیے عیسائیت اور یہودیت کی تھیوکریسی کا مطالعہ لازمی ہے ۔
ایک عام سی مکمل تھیوکریسی تین عناصر ترکیبی سے بنتی ہے پہلاخدائی عبادت خانہ دوسرا کتاب مقدس اور تیسراپوپ وہ مذہبی پیشوا جو ایک روحانی عمل کے نتیجے میں روح مقدس { holy ghost}کے تعلیمات کی تشریح کرتا ہے ۔ان تینوں عناصر پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے سب سے زیادہ بااختیار پوپ ہے ، کیوں کہ عبادت خانہ تو ایک گھر ہے ، اور کتاب یہ اگرچہ روح مقدس کے کلمات ہیں مگر اس کی تشریح کا اختیار پوپ کو حاصل ہے ۔ کیوں کہ عیسائی عقیدے کے مطابق پوپ ایک روحانی عمل کے نتیجے میں روح مقدس سے براہ راست تعلیمات حاصل کرتاہے اس لیے روح مقدس کے کلمات کی تشریح کااختیار بھی اسی کو حاصل ہوتا ہے ۔ اس طرح کلیسا اور پوپ مذہبی طورپر لامحدود اختیارات کے مالک بن جاتے ہیں ۔ عیسائیت سے قبل یہودیت میں بھی تھیوکریسی کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ ان کے ہاں تھیوکریسی کا اطلاق ایسے قبائلی یا خاندانی حکومت پر ہوتا تھا جو خدائی قانون پر عمل درآمد کرنے کا دعویدار ہوتا تھا ۔ یہودیوں کے ہاں خالق کائنات یح ویح {Jahweh}کی حکومت کا باقاعدہ تصور موجود ہے ۔  یہودیوں کی تھیوکریسی میں بھی تین عناصر ترکیبی ہیں ۔خدائی عبادت خانہ ، جیسے ہیکل سلیمانی ، کتاب مقدس جیسے تورات اور یح ویح کا ترجمان یہودی ربائی ۔ عیسائیوں کی طرح یہودیوں کے ہاں بھی یہ عقیدہ تھا کہ مذہبی پیشوا ربائی ایک روحانی عمل کے نتیجے میں یح ویح سے براہ راست مخاطب ہوتا ہے ۔ اس لیے کتاب مقدس کی تمام تشریحات کا اختیار بھی اسے دے دیا گیا تھا ۔ پوپ ہو یا ربائی دونوں کوتمام تشریحات کا اختیار حاصل ہوجانا ایک ایسا ہتھیار تھاجس کا وہ جب اور جہاں چاہتا استعمال کرتا ۔ اس سے پوچھنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں تھا ۔ پوپ اور ربائیوں کی انہیں من مانیوں نے عوام کو مذہب کا باغی بنادیا ۔ خلافت اسلامیہ کی جب بات آتی ہے تو ایک مذہبی حکومت ہونے کی وجہ سے اسے تھیوکریسی کہدیا جاتا ہے ۔حالانکہ اسلام میں عیسائیت یا یہودیت کی طرح کی تھیوکریسی کا تصور بھی ناپید ہے کیوں کہ خلافت اسلامیہ میں خلیفہ کو اللہ تعالی کا نائب تو سمجھاجاتا ہے مگر اس کے براہ راست اللہ تعالی سے رابطہ کا تصور  نہیں اسلام میں نہیں ہے  ۔ اسلام میں ایسے کسی روحانی عمل کا تصوربھی نہیں جس کی بدولت مذہبی پیشوا براہ راست الہام کے ذریعے خداتعالی سے احکامات وصول کرے ۔ اس میں تبدیلی یا تنسیخ کا حکم جاری کرے ۔ خلیفہ اللہ تعالی کا اس لحاظ سے نائب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات اور احکامات زمین پر نافذ کرے ۔ اور پھر خداتعالی کی تعلیمات میں تشریح کا حق دے کر عیسائیت نے پوپ کو جو لامحدود اختیارات سونپے ہیں اسلام میں اس کاتصور بھی نہیں ۔ اسلام میں کوئی شخص بھی اختلاف سے مبراء نہیں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار خلفاء راشدین گزرے کسی نے بھی اپنے بارے میں یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ خداتعالی کی ذات سے براہ راست تعلیمات لیتا ہے ۔ یا اس کی بات سے اختلاف کرنا لامذہب ہونا ہے ۔ خلفاء راشدین کے بعد فقہاء اور ائمہ مجتہدین جنہوں نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں فقہ مرتب کی اور صدیوں سے ان کے مرتب کردہ فقہ اور قوانین پر کروڑوں لوگ عمل پیرا ہوتے آرہے ہیں ان ائمہ مجتہدین کو بھی اس قدر تقدس اور لامحدود اختیارات نہیں بخشے گئے ۔ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہےکہ اگر امام جعفر صادقؒ نےایک رائےقائم کی تو امام ابو حنیفہؒ نےان کےشاگرد ہونےکےباوجود ان سےاختلاف کیا اور یہی شکل ان کےتلامذہ امام حسن الشیبانی اور امام ابو یوسف نےان کےساتھ ان کی زندگی اور بعد میں اختیار کی  ۔بعض متقدمین فقہاء نےاپنےسےقبل کےاکثر علماء و فقہاء کےاجتہادات و آراء کو پس پشت ڈالتےہوئےنئےسرےسےاصول تعبیر و تفسیر کو اختیار کرتےہوئےقرآن و حدیث کی بناء پر جدید اجتہاد کی دعوت دی۔ امام ابن تیمیہ کا نام اس حوالےسےنمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اور ان تمام تعبیرات و تشریحات  میں کسی ایک مجتہد یا امام نےبھی اپنی رائےکےلیےالوہی تقدس یا Divine sanction حاصل ہونےکا دعویٰ نہیں کیا،نہ انہیں بعد میں آنےوالوں نےیہ مقام بخشا۔
حقیقت واقعہ تو یہ ہےکہ ربائیوں یا راہبوں کےتقدس کو تو خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کےارشاد گرامی ’’لارہبانیہ فی الاسلام‘‘ نےقیامت تک کےلیےمغربی اصطلاح میںde-sacrilize کر دیا تھا۔ اس لیےکسی بڑےسےبڑےمجتہد اور امام کو وہ مقام عصمت حاصل نہ ہو سکا جو ایک انسان کی فکر،تعبیر  یا تشریح کو immunityفراہم کر دے۔اس حقیقت واقعہ کی روشنی میں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی تصور Theocracy کو اسلام پر چسپاں کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اس لیے یہ الزام لگانا کہ خلافت اسلامیہ ایک تھیوکریسی ہے انتہائی غلط ہے ۔ اسلام میں عیسائیت اور یہودیت کی  تھیوکریسی  کا کہیں بھی تصور نہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں