تاریخ سے چشمک

وجاہت مسعود صاحب روزنامہ جنگ کے معروف رائٹر ہیں ۔ ان کے کاٹ دار مگر انتہائی سنجیدہ کالم مجھے بہت پسند ہیں ۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود تقریبا ان کی ہر تحریر میں پڑھتا ہوں ۔ ان سے نظریاتی اختلاف چند جزئیات میں نہیں پورے اصول میں ہے ۔ اس لیے ان پر تنقید کو بھی جی کرتا ہے ۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وہ تقریبا ہر معاملےمیں مذہب اور عقیدے کو سائڈپر لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں انہیں ایتھسٹ تو نہیں کہتا اور نہ انہوں نے کبھی اس کا دعوی کیا ہے ہاں اس سے کم یعنی لبرل انہیں ضرور سمجھتا ہوں ۔ آ ج کی چند سطور رقم کرنے کا باعث بھی ان کا ایک کالم ہے ۔
 21 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں "تاریخ سے چشمک "کےعنوان سےشائع ہونے والے ایک کالم میں انہوں نے بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے اسباب کا ذکر کیا ہے ۔ ان کی تحریر کا لب لباب جہاں تک مجھے سمجھ آیا ہے وہ یہ کہ ہم نے پاکستان کے شیرازے کو مذہب کی بنیاد پر جوڑنے کی کوشش کی تھی جو زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ۔
ہمیں پاکستان کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے مذہب سے دستبردار ہوکر دیگرایسے کلیات تلاش کرنے ہوں گے جن سے ہم قوم کو متحد کرکے یکجا کرسکیں ۔ انہوں نے اس کے لیے مختلف ممالک کی مثالیں بھی دی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ کی اینٹ اس وقت رکھی گئی تھی جب ہم نے مذہب کی بنیاد پر سب کو اکٹھا کیا تھا ۔ وجاہت مسعود صاحب کے جارحانہ جملے اور اقدامی تعبیریں ہم من وعن لانے سے قاصر ہیں بہر حال اصل بات اتنی ہی   ہے ۔
وجاہت مسعود صاحب نے حسب عادت سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار بھی مذہب ہی کو قراردیا ۔ اس سے قبل ہم ان کے ہر کالم میں ہر پیش آنے والے واقعے کے ذمہ دار مذہب کو پڑھتے آئے ہیں مگر آج تو حد ہی ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ ہماری پہلی غلطی یہ تھی کہ ہم نے قوم کو مذہب کے نام پر جمع کیا تھا اور یوں پاکستان کی بنیاد ہی میں غلطی کا روڑا آگیا ۔ وجاہت صاحب کی یہ بات دراصل پاکستان کی بنیاد نہیں زیر لب بانیء پاکستان کو غلط کہنے کی جرات ہے ۔ حالانکہ یہ سوال کہ پاکستان کس لیے بنایا گیا تھا اور اسے کس لیے بنایا جانا چاہیے تھا؟ اس کا جواب اس تحریک کے بانی اور ان کی قیادت میں پاکستان کے لیے لاکھوں جانیں قربان کرنے والے لوگ دے سکتے ہیں یا آج ہم بیٹھ کر اس کا جواب طے کریں کہ پاکستان کو وجود دلانے کے لیے کیا نعرہ استعمال کیاجانا چاہیے تھا ۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان کس کرب کی زندگی گذار رہے تھے ان مصائب وآلام کا اندازہ آج ہم کرنے بیٹھ جائیں اور اپنے اندازے لگا کر ان کی بوسیدہ قبروں یا خوابیدہ روحوں کو مشورہ دینا شروع کردیں کہ تم نےجو کیا غلط کیا تمھیں ایسے نہیں ویسے کرنا چاہیے تھا۔ تاریخ کو یکسرنظر انداز کرکے تجزیے کرنا تاریخ کے ساتھ  ظلم ہے ۔
 رہی  یہ بات  کہ اب مستقبل میں ہمیں مذہب کی اکائی کو ختم کرکے دیگر اقدامات پر غور کرنا ہوگا جس سے ہم قوم کومتحد کرسکیں ۔ وفاق بھی ان کے ہاں اکائی کی حیثیت نہیں کہ وہ استعماری قوتوں کی ایجاد ہے ، پھر آنجناب ہی بتادیں وہ کونسا مرکزی نکتہ ہے جس پر قوم کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر کسی مرکزی نکتے کے بغیر قوم کو متحدکرنے کا سوچاجائے تو یہ محض اپنے لیے درد سر ڈھونڈنے یا قوم کو ایک نئے ایڈوینچر میں ڈالنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔
ہمیں زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں مختلف قومیں ، مختلف زبانیں اور مختلف ثقافتوں کے لوگ رہتے ہیں ۔ یہاں کسی ایک قوم اور زبان کو عروج دلانے کا مقصد دوسرے کو محروم کرنا ہے جس سے بدیہی طورپر "توڑ" پیداہوگا۔ پاکستان کی بقاء کے لیے ایک اکائی پر قوم کا اکٹھا ہونا لازمی ہے اور یہ اکائی مذہب کے علاوہ کوئی اور اکائی نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ مذہب (جتنا ہے ) کو ختم کرکے ہم قوم کو ایک نئے ہیجان میں ڈال دیں گے ۔پاکستان کی بنیاد پہلے لاالہ الا اللہ کے نعرے پرپڑی ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح باربار پاکستان کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تجربہ گاہ قراردے چکے ہیں ۔ انہوں نے بارہا کہا ہے کہ ہم پاکستان بناکرصرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں چاہتے، بلکہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی ،جہاں مسلمان پوری آزادی سے اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوسکیں  گے۔
رہی بات بنگلہ دیش کی کہ ڈھاکہ ہم سے الگ کیوں ہوا ۔ اس قضیے پر غور کیا جائے تو بات بہت واضح ہے ۔ اس کے لیے "تاریخ سے چشمک " کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ بنگلہ دیش جو ہم سے الگ ہوا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ہم نے پاکستان کو اس کے اساس اور بنیادی نظریات سے ہٹادیا تھا ۔ ہم نے قائد اعظم کی وہ تعلیمات اور اقوال پس پشت ڈالدیے جس میں انہوں نے لسانی امتیازات کو مٹاکر ایک پاکستانی ہوکر متحد رہنے کی تعلیم دی تھی ۔ ہم نے اسلام کے مساوات اور اخوت کے ہدایات چھوڑ دیے ۔ سقوط ڈھاکہ سے قبلہ ہم نے مشرقی پاکستان کو اس کا جائز حق دینے سے انکار کردیا تھا ۔ پستہ قد اور گہری سانولی رنگت کے بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے قدآور ، سر خ وسفید پٹھان ، سینہ تھان کے چلتے ہوئے پنجابی ، کڑیل سندھی اور بڑی بڑی مونچھوں والے بلوچ حقارت سے دیکھتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ بنگالیوں کے پاس شکل وصورت کا سرمایہ نہیں تھا مگر ان کے پاس تعلیم اور  بلند سوچ تھی ۔ یہ تو عام معاشرتی بدسلوکی تھی جس کا بنگالیوں کو سامنا تھا ۔ سیاسی سطح پر بھی ہم نے ان کے ساتھ اسلامی مساوات اور جائز حق کی بنیاد پر سلوک نہیں کیا ۔ بھٹو کا نعرہ ادھر تم ، ادھر ہم یہ بھی تفریق کی ایک بنیاد تھی ۔ بھٹو صاحب کو اسلامی مساوات یا اخوت کا لحاظ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے کیوں کہ اسلام میں ذات پات ، قبائل ، زبانیں، رنگ ونسل کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتا ۔ اسلام میں سب برابر ہیں ۔ ادھر تم ، ادھر ہم کے نعرے سے صاف ظاہر ہے ہم نے اپنی قوم کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی تھی ، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔ ارباب دانش ذرا غور کریں قوم کے درمیان یہ لکیر مذہب نے کھینچی ہے ؟ کیا اب بھی سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار مذہب ہے ؟ یا مذہب سے دوری ہی ہماری اس تباہی کا باعث بنی تھی ؟
اسی بات کوآج کے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں ۔ چارصوبوں میں چاربڑی قومیں رہتی ہیں۔ یہاں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ پاکستان کے عوام میں بھائی چارہ پیدا کرنے اور انہیں اتحاد واتفاق سے رہنے کا درس کس بنیاد پر دیا جانا چاہیے ؟ لسانیت کا جو زہر سیکولر جماعتوں نے یہاں کاشت کیا ہے اس کے نقصانات سے اب بھی ملک خانہ جنگی کا شکار ہے ۔ کراچی میں متحدہ ، سندھ میں سندھی قوم پرست اور بلوچستان میں بلوچ قوم پرست پاکستان توڑ کر اپنا حصہ الگ کرنے کا نعرہ برملا لگارہے ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی کی انڈیا سے پرانی دل پشوریاں کسی سے ڈھکی چپی نہیں ۔ سیکولر جماعتوں کی قیادت میں چلنے کا ثمرہ ہمارے عوام نے مشاہدہ کرلیا ہے ۔ ہر لسانیت پرست سیکولر تنظیم ملک توڑنے کے درپے ہے تو کیا اب ملک میں جاری تھوڑی سی مذہبیت کا خاتمہ کرکے ہم ملک کو بالکل ہی کاٹ کر رکھ دیں ۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں