فیس بکی ملحد اور قادیانی

کہتے ہیں زمانے کے اقدار بدل گئے ہیں ۔ یا زمانے کو رہنے دیجیئے زمانے کے لوگ بدل گئے ہیں اور ایسے بدلے ہیں کہ صلاحیتوں کے ساتھ افکار اور نظریات میں بھی کمزوری اور اضمحلال آگیا ہے ۔ اس کی ایک مثال ہمارے فیس بکی ملحد بھی ہیں ۔ ویسے کہنے کو یہ ملحد بھی وہی صدیوں پرانے حکمت ، فلسفے اور علم منطق کے زمانہ عروج کے ملحد ہیں مگر اپنے لیے جو انہوں نے نئے نام رکھے ہیں وہ بہت لکش اور شاندار ہیں ۔ عقائد میں انیس بیس کی تحریف کرکے سمجھتے ہیں دنیا میں ایک جدید فکر لے کر اٹھ رہے ہیں ۔ ان کی طرح ہمارے فیس بکی ملحدوں کو عقلیت پسندی کا دعوی ہے ۔ ہر چیز کے لیے منطقی جواز کی رٹ ان کی زبان پر بھی ہوتی ہے مگر حکمت ، فلسفہ اور منطق کے متعلق ان کی معلومات "منطق" کے اس چار حرفی لفظ سے زیادہ نہیں ہوتیں ۔ سوشل میڈیا پر ان کا بازار خوب گرم ہے ، مذہب کے حلال وحرام سے جان چھڑانے اور شتر بے مہار کی سی زندگی گذارنے کے شوقین چند مغبچے فیس بک پر جمع ہوکرمحفل گرم کرتے ہیں ۔
نجانے کتنے اکاؤنٹ بناڈالے ہیں اور ایک ایک ملحد نے نجانے کتنے پیجز بنارکھے ہیں ۔ اب محفل سجتی ہے ، ایک نے طرح پر مصرع اٹھایا دوسروں نے آواز میں آواز ملائی، ہر ایک نے حصہ بقدر جثہ ڈالا، یوں محفل گرم ہوئی ، سب نے خوش آوازی کی اور سب ہی نے ایک دوسرے کو داد ودہش سے نوازا ۔ قارئین ! پطرس بخاری کا مزاحیہ مضمون "کتے" کسی نے پڑھا ہو تو صورت حال خوب سمجھ آئے گی ۔ فیس بکی ملحدوں کا بھی کم وبیش حال یہی ہے ۔ ایک ایک شخص نے کئی کئی اکاؤنٹ ، پیجز اور گروپ الاٹ کررکھے ہیں ۔ مال مفت دلے بے رحم ،اکاؤنٹ یا پیج بنانے پر روپیہ پیسہ تو نہیں لگتا ۔ اس لیے ایک ایک پوسٹ پر لائکس اور کمنٹس کی بارش ہوجاتی ہے ۔ ہر کمنٹ واہ ،واہ ۔ دوچار تگڑے تو کمنٹس میں طنز کرتے ہوئے اور بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔ زیادہ طبیعت بوجھل ہو تو niceکا مختصر سا لفظ لکھنے کی زحمت تو ہر کوئی گوارا کرہی لیتا ہے ۔
صرف ملحد ہی نہیں فیس بک پر ایسا طرز عمل قایانیوں کا بھی ہے ۔ براہ راست قادیانیت کی تبلیغ سے تو رہے کیوں کہ ایسی صورت میں انہیں مسلمانوں کی جانب سے سینکڑوں سوالوں کے جوابات دینے پڑتے ہیں اس لیے قادیانیت کی تبلیغ کی بجائے مسلمانوں کے خلاف خصوصا علماء کے خلاف زبان درازیاں کرنے لگتے ہیں ۔ مرکز اسلام سعودی عرب ، مکہ مکرمہ  اور مدینہ منورہ ان کی تضحیک و تمسخر کا خاص نشان بنتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کو جدت ، تہذیب نو ، عقلیت پسندی ، روشن خیالی اور روشن فکری کا دعوی ہے ۔ ہراکاؤنٹ پر یہ دعوی روزانہ بلاناغہ دہرایا جاتا ہے کہ ہم دلیل اور منطق کے قائل ہیں مگر حال یہ ہے کہ کبھی یہ لوگ دلیل اور آزادیء رائے کا سامنا نہیں کرسکتے ۔ اور یہ صرف قادیانی نہیں ملحدوں کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ۔ دعوے ، الفاظ ، طریقہ واردات سب کے ایک سے ہیں ۔ بات کرو تو لب ولہجہ دونوں کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ پہچان نہیں ہوتی ۔
ان ملحدوں اور قادیانیوں کے مشترک اوصاف سب ہی ایک جیسے ہیں ۔ ان کا ایک وصف مشترک یہ بھی  ہے کہ ڈائیلاگ مباحثہ اور مکالمہ پر یقین کا نعرہ لگانے والے کبھی مباحثے میں سنجیدہ نہیں ہوتے ۔ معلومات اور مطالعے کی قحط کے سب شکار ہیں ۔ جب بھی بات مباحثے کو پہنچے تو کج بحثی اور طنز وتشنیع پر اتر آتے ہیں ۔ زیادہ زبان بند ہوجائے تو ان کے پاس ایک ہتھیار ہے بس وہ چلا کر تمھاری زبان بند کردیں گے یعنی کمنٹ بلاک ۔ روشنی کے نام سے قادیانیوں کا ایک معروف پیج صبح شام اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کرتا ہے ۔ کبھی ہم نے اسے لائک کیا تھا تب ان سے دوچار مباحثے ہوئے ۔ جواب ندارد تو آخر نتیجہ وہی نکلا کمنٹ بلاک ۔ کمنٹ بلاک کرنے کا مطلب ہے کانوں میں روئی ٹھونس دینا ۔ روئی ٹھونسنے کے بعد ہماری آواز ان کی سماعتوں تک پہنچنے سے رہی ۔ ہم نے آس پاس کے دوستوں سے رابطہ کرکے ان کو کمنٹ کھولنے کا کہا مگر کچھ بھی نہ ہوسکا ۔ بلآخر ہم نے بھی ان لائک کردیا ۔ ایسا ہی ایک سلسلہ سائیں نام کے ایک قادیانی سے چلا ان کی برداشت کی حدتک بہت محدود تھی دو چار کمنٹ کے بعد گالیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اس لیے ہم نے بھی یہ سلسلہ ختم کردیا ۔ پھر اسی دن ہمیں اسامہ عثمانی کے نام سے ایک فرینڈ ریکوسٹ موصول ہوئی ۔ ہم نے کنفرم کیا تو وہ جیسے بحث کے لیے تیار کھڑا تھا ۔ فورا ہی مباحثہ شروع ہوگیا ۔ دوچار سوال جواب کے بعد ہم نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کے حوالے دیکر پانچ ، چھ سوالات کیے جس کے جوابات تقریبا سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال نہیں مل سکے ۔ اب بھی کبھی ان کا پیغام ملتا ہے مگر اس میں بس ایک لنک ہوتا ہے جس پر کلک کے بعد قادیانیوں کی ایک ویب سائٹ کھل جاتی ہے جس میں افریقہ کے دورافتادہ قحط زدہ علاقوں میں قادیانیت کی مزید پھیلنے کی خبر نشر ہوتی ہے اور بس ۔ اس کے بعد ہم نے کئی بار انہیں ابھارا کہ وہ ذرا پھر سے رابطہ کریں اور پھر سے "ڈائیلاگ" ، "مباحثے" اور "مکالمے " کا سلسلہ شروع کردیں ۔ مگر جواب نہ دارد ۔
ملحدین کی صورتحال بھی اس سے چنداں مختلف نہیں ۔ ہمارے ایک قریبی مہربان کی بات ہوئی "مولوی استرا" کے نام سے معروف ملحد سے ۔ ان سے جوبھی سوال کرو ان کے پاس سے جواب طنز وتشنیع ہی میں ملے گا۔ پھر یہ طنز آگے جاکر فحش گالیوں میں بدل جاتا ہے ۔ اخلاقیات اور اخلاق کی رٹ بہت لگاتے ہیں مگر اخلاق کا ذرہ ان میں نہیں پایا جاتا ۔ مقابل کے لیے انسانیت کی بنیاد پر ہی سہی جذبہ احترا م تو ہونا چاہیے ۔ کسی کے عقائد کی اتنی بے احترامی کہ برداشت کے حدود سے بھی پار ہونے لگے ، یہ ان کا شیوہ ہے ۔ بات دلیل سے ہو اور جواب میں دلیل طلب کی جائے تو سنجیدہ مکالمے کا میں خود احترام کرتا ہوں مگر جہاں تم دلیل سے بات کرو تو سامنے سے وہ ساری بات ہنسی میں اڑا دیں گے ۔ ان کے بنائے ہوئے گروپ جوائن کریں پتہ چلے گا سب ہی بداخلاق اور بے وقوف قسم کے لوگ جمع ہیں جن کے پاس کسی کے احترام کے لیے کوئی پیمانہ نہیں ۔ ان کے ہاں کسی سے اخلاق سے پیش آنا یا کسی کا احترام کرنا یہ تہذیب جدید کے خلاف ہے ۔ کسی سے عاجزی سے بات کرنا آزادی پر قد غن ہے ۔ کسی بچے کو کسی بڑے کے ادب کی تعلیم دینا اس کی آزادی سلب کرنا ہے ۔ عام آدمی کی آزادی کا تو یہ نعرہ لگاتے ہیں مگر کوئی اس آزادی سے مستفید ہوکر مذہب پر عمل کرے تو یہ ان کے ہاں قابل نفرت ہے ۔ کسی مسلمان کے ہاتھ سے کسی کافرکو تکلیف پہنچے تو یہ سب مذہب کا کیا دھرا ہے ۔ اور اسی لیے مذہب ناقابل عمل ہے ، بلکہ اس کے خاتمے کی ضرورت ہے ۔مگر ان کی زبان سے جو روزانہ لاکھوں مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے یہ اخلاقیات کے کسی دائرے میں نہیں آتے ۔ مسلمانوں کو شدت پسند اور بنیادپرست کا طعنہ دینے والے اپنے چند تراشے ہوئے خیالات کے بارے میں اس قدر بنیاد پرست اور شدت پسند ہیں کہ اس کی ذرہ بھر مخالفت بھی ان سے برداشت نہیں ہوتی ۔ ان کی گالیوں سے اسلام کی مقدس ترین ہستیاں بھی محفوظ نہیں ۔ گالیاں دینا ، مذاق اڑانا ، تذلیل کرنا اور دلیل کے جواب میں پھبتی کسنا یہی ان کے ہتھیاروں کا کل سرمایہ ہے ۔ ان کے پاس کوئی واضح نظریہ اور خیال نہیں ۔
قادیانی ہوں یا ملحد یوں تو دونوں الگ نظریات کے لوگ معلوم ہوتے ہیں مگر فیس بک پر ان کا طریقہ ایک ہی ہے اور مقصد بھی ایک ۔  قادیانیوں کا بھی کہنا ہے اس ملک سے ملا کو نکال دو ،کیوں کہ وہ اپنا انتقام لینا چاہتے ہیں ان علماء سے جنہوں نے انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کافر میں قرار دلوایا تھا ۔ ملحدوں کی دشمنی بھی علماء سے ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اس ملک میں علماء ہیں ملحدوں کی دال نہیں گلنے والی ۔

14 تبصرے:

  1. اس ایمانی تحریر کیلئے مبارکباد قبول فرمائیں ۔۔۔۔۔۔ صد شکر کہ ایک اور اہل حق اردو بلاگر کی صدائے حق بلند ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ سدا خوش آبد و خوش مراد

    جواب دیںحذف کریں
  2. اس تحریر کی پروموشن اور شئیرنگ لازم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو اسے بلا اجازت اپنی والز پر آویزاں کرنے کی جسارت کر رہا ہوں لیکن مابعد اسے آپ کے نام کے ساتھ اپنے بلاگ پر شائع کرنے کیلئے اجازت کا طلبگار ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. فاروق صاحب کیسی اجازت اور کہاں کا نام؟آپ بصد شوق بلا نام بھی شائع کرسکتے ہیں۔ہمارے لیے آپ بزرگوں کی سرپرستی ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ،امید ہے آئندہ بھی سرپرستی فرماتے رہیں گے۔

      حذف کریں
    2. جناب میں بھی اپ کے بلاگ پر لکھ سکتا ہوں کیا

      حذف کریں
    3. گمنام صاحب اپنا نام تو لکھ لیا ہوتا،آپ مجھ سے ای میل پر رابطہ کریں۔bakht.barshori@yahoo.com

      حذف کریں
  3. میرا فیس بُک پر اکاؤنٹ تو ہے لیکن اسے صرف اپنے خاندان تک محدود رکھا ہوا ہے ۔ وجہ صحتِ ذہن قائم رکھنا ہے ۔ مجھے تو ہنسی آتی ہے جب ایک آدمی عقل کو اپنی میراث کہتا ہے اور عقل اُس کے پاس سے گذری نہیں ہوتی کیونکہ عقل کا منبع تو قوتِ ایمان ہے
    ایک درخواست ہے کہ حاشیئے میں میرا نام درست کر لیجئے ۔ بھوپالی کی جگہ بھوپال کر دیجئے ۔ نوازش ہو گی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔بلاگ پر آنے کا بہت بہت شکریہ

      حذف کریں
  4. بہت خوب لکھا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب بھی ان جیسوں کے ساتھ مباحثہ کیا گیا ،تو انہوں نے یا تو گروپ سے نکال دیا،یا دیگر اوچھے ہتھ کنڈوں پر اتر آئے۔

    تبصرے کے بعد سیکورٹی کوڈ تبصرہ نگار کی دلشکنی کا باعث بن سکتا ہے ،اسی حوالے سے میری تحریر
    http://mansoorurdu.blogspot.com/2013/02/blog-post.html

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. منصور مکرم صاحب میں خود اس سیکیورٹی کوڈ سے تنگ ہوں مگر ختم کرنے کا طریقہ سمجھ نہیں آرہا ہے،آپ کی تحریر سے بھی میں اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہ لے سکا،میں نے تبصروں کی اجازت سب کو دے رکھی ہے

      حذف کریں
  5. اتنا اچھا لکھنے کا شکریہ ... یہ کوڈ ختم کریں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جناب gdfh نے اپنا نام لکھا ہوتا تو کیا اچھا ہوتا

      حذف کریں
  6. آپ بلاگر دیش بورڈ میں جائیں اور پھر وہاں کومنٹس پر کلک کریں ،وہیں آپکو سیکورٹی کوڈ ان چیک کرنا ہوگا۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. بہت اعلی ۔۔۔ آپ نے بلکل درست نقشہ کینچھہ ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.

    اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل بھاگ۔ بےشک باطل بھاگنے والا ہے, سورۃ الاسرا ایت 81

    ذرائع ابلاغ کی کوئی بھی قسم ہو ، کوئی بھی چینل یا پلیٹ فارم ۔۔ وہاں اضداد کا ہونا فطری عمل ہے ۔۔۔ ایک طرف حسن نثار اور دوسری جانب انصآر عباسی(مثال ہے اختلاف سب کا حق ہے) ۔۔ یہ جنگ ازل سے چل رہی ہے ۔۔ حق و باطل کا معرکہ تو صدیوں سے گرم ہے ۔۔ ہاں! اس میں ہمارا (میرا) کیا رول ہے ۔ یہ بات دعوت فکر ہے ۔۔ میرا دین و ایمان، میرا دینی اور ملی تشخص، عقیدہ و کلام ۔۔۔ معاملات و معمولات ۔۔ اور مجھ سے منسلک جملہ امور ۔۔ ایک دعوت فکر ہے ۔ مجھے جنجھوڑنے کے لئے اور اپنا راستہ معتین کرنے کے لئے ۔۔ ایک احتساب جو میرے پیش منظر میں مجھ سے ملن کے لئے بے تاب ہے ۔۔۔

    دوستو! سچ اور حق اپنے آپ کو منوا لیتا ہے ۔ دیر ہوتی ہے اندھیر نہیں۔۔ عجلت کے بجائے تاخیر کا دامن تھامیے ۔ اور اپنا ۔۔ اپنا احتساب کر کے اپنا راستہ معتین کیجئے ۔

    جواب دیںحذف کریں