یوم خواتین،مغرب اوراسلام _پہلی قسط



8مارچ کو اہل مغرب یوم خواتین مناتے ہیں ۔ مغرب کے دیکھادیکھی مسلمانوں میں بھی یہ وبا عام ہے ۔ یہ دن خواتین کے حقوق اور ان کی حیثیت اجاگرنے کے لیے منایا جاتا ہے ۔ یورپ گزشتہ دو صدیوں سے خواتین کے حقوق کا پروپیگنڈا کررہا ہے ۔ عورت کوحقوق دینے کے نام پر اس کے کئی این جی اوز اور ادارے کام کررہے ہیں ۔ اس معاملے میں کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ ،آج کی مجلس میں ہم ذرا اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔
معاشرے میں عورت کے تین ادوار:
اجتماعی معاشرتی صورتحال کو دیکھیں تو انسانی تاریخ میں عورت پر تین ادوار گذرے ہیں ۔ پہلا دور قبل از اسلام کا ہے جہاں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ مرد کے مقابلے میں عورت کو معاشرے کا جزو معطل سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تخلیق کا مقصد محض مرد کی خدمت اور چاکری تھی ۔ رہن سہن ، لباس پوشاک ، کھانے پینے غرض ہر معاملے میں وہ مرد کے رحم وکرم پر تھی ۔ ادھر وہ دانشور جن کے نظریات کا آج بھی چرچا ہے وہ کبھی تو عورت کو سانپ بچھو قرار دیتے اور کبھی اسے انسان نما حیوان کہتے ۔ ان کا کہنا تھااس کی تخلیق کا مقصد مرد کے لیے بچے پیدا کرنا اور اس کی خدمت کرنا ہے ، اسے سارے فساد اور خرابیوں کی جڑ کہا جاتا تھا ۔ دنیا کی دو بڑی تہذیبیں روم اور فارس جو دنیا کی متمدن تہذیبیں کہلاتی تھیں وہاں بھی یہی صورتحال تھی،جانوروں کی طرح عورتوں کی خرید وفروخت ہوتی تھی ۔ عرب معاشرے میں عورت کو جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کا سامنا تھا، جنسی تسکین کے لیے خواتین کے تبادلے اور کرائے پر لین دین عام تھی ۔ بلکہ نکاح کا نام دے کر اسے قانونی جواز بخشا گیا تھا ۔
اشرافیہ طبقہ کے لوگ جب چاہتے جہاں چاہتے اور جس کو چاہتے اپنے ہوس کا نشانہ بناتے ۔
دوسرا دور جو عورت کے معاشرتی حیثیت کے لیے بہترین دور گذرا ہے وہ اسلام کے ظہور کے بعد کا دور ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت خود ایک انقلاب کے سورج کا طلوع تھاجس کی ضوفشاں کرنوں نے تہذیب ، معاشرت ، معیشت اور نظام سیاست سمیت ہر گوشہء زندگی کو متاثر کیا ۔ اس انقلاب نے عورت کی زندگی کو بھی بدل دیا ۔ اسلام نے عورت کے حق میں ایک زوردار انقلاب کا نعرہ لگا یا اور دنیاکا رخ بالکل الٹی طرف پھیر دیا ۔عورت کے بارے میں اسلام سے قبل دنیا کی جو منفی سوچ تھی اب اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ عورت کا استحصال اسی طرح سےکیا جاسکے جس طرح اسلام سے قبل کیا جاتا تھا ۔ اسلام نے عورت اور مرد کی مساوات کا پیغام دیا اور اس کے لیے جو بنیا د بتایا وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہونا بتایا ، یہ ایسی دلیل تھی جس کا جواب کسی غاصب یا خاتون دشمن تہذیب کے پاس نہیں تھی ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اس اعلان کے بعد عورت دنیا میں ایک الگ حیثیت سے متعارف ہونے لگی۔ اسلام نے واضح اور دوٹوک انداز میں کہا : يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفسٍ واحدةٍ وخلق منها زوجها وبث منهما رجالًا كثيرًا ونساءً واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبًا۔
ترجمہ :اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیے اور اللہ سے ڈرو جس کے ذریعہ تم ایک دوسرے سے مدد طلب کرتے ہو اور رشتوں کا احترام کرو۔ بےشک اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
یہ صرف اعلان نہیں تھا اسلام نے اپنی تعلیمات میں جہاں ہر گوشہء زندگی پر روشنی ڈالی وہاں عورت کے حقوق کے حوالے سے بھی واضح ہدایات دیں ۔ معاشرے اور گھر میں اس کی ہر حیثیت سے الگ الگ راستہ متعین کیا ۔ مرد کو اپنی تعلیمات کے ذریعے پابند بنایا اور اسے عورت کی احترام کا درس دیا ۔ انہیں تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ اسلام اور اسلامی نظام کے دور عروج میں عورت گھرکی ملکہ بن گئی ۔ اس کے احترام اور تقدس میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔ اسلام نے حقوق تو مرد وعورت کے ایک ہی بتائے مگر تخلیق اور مجموعی جسمانی صلاحیتوں میں فرق کو ملحوظ رکھ کر ان کی ذمہ داریاں الگ الگ کردیں ۔ مرد کو فکر معاش دیا اور عورت کو گھر سنبھالنے کی ذمہ داری دی ۔ اسلام نے کہا وقرن فی بیوتکن ۔ اپنے گھروں میں قرار پکڑو۔ گھر اور باہرکی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ دنیا میں بڑَے بڑے اور انتہائی مشکل کام سرانجام دیے جاتے ہیں جبکہ گھر میں صرف متوازن نظم وضبط قائم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ قرن فی بیوتکن کا مطلب ہر گز اسلام نے یہ نہیں بتایاکہ گھر میں معطل ہو کر رہ جائے ۔ تاریخ اسلام میں ایسی سینکڑوں خواتین گزری ہیں جنہوں نے علم وفن کی دنیا میں کمال حاصل کیا اور تاریخ میں اپنانام درج کروایا ۔
تیسرا دور یورپ کے معاشی انقلاب کے بعد کا ہے ۔ آسمانی ہدایات سے محروم مغرب پر سائنس اور معیشت کے دروازے جب وا ہوئے تو اس نے سرمایے اور دولت کے حصول کے لیے کسی بھی ذریعہ کے استعمال سے دریغ نہیں کیا ۔ چونکہ نصف انسانی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اس لیے صنعت کاروں کو اتنی بڑی انسانی آبادی کا "بیکار" رہنا گوارہ نہیں تھا ۔ صنعتوں کو ورکرز مہیاکرنے لیے جو بڑی پریشانی تھی اس کا ایک اچھا حل یہی تھا کہ عورتوں کو بھی کارخانوں میں ملازم رکھا جائے ۔ چونکہ اس وقت تک اسلام کے دور عروج کے اثرات تھے ،یورپ میں بھی اسلامی تہذیب رائج تھی اور خواتین میں گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کا رواج نہ تھااس لیے عورت کو گھرسے نکالنے سب سے پہلے عورت اورمرد کی برابری کا نعرہ لگایا گیا ۔ خواتین کو گھروں سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا نعرہ دیا گیا ۔ اسلام نے حقوق تو پہلے ہی برابر دیے تھے یورپ نے ذمہ داریوں اور مشقتوں میں برابر کی تقسیم کر ڈالی ۔ اس کا ایک نقصان تو خود عورت کو ہوا وہ یہ تھا کہ گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ اسے باہرکی دنیا بھی سنبھالنی پڑی ۔ دوسرا نقصان معاشرے کو ہوا وہ یہ کہ معاشرے میں مرد وزن کا اختلاط عام ہوگیا۔ مرد وزن کے عام اختلاط نے معاشرتی روایات کے ساتھ اخلاق ، حیا اور شرافت کے اقدارکو تباہ کرکے رکھ دیا ۔ داناوں کا کہنا ہے کہ عورت کی آزادی چاہنے والے دراصل عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں ۔ یورپ آج جس اخلاقی اور خاندانی نظام کی تباہی سے دوچار ہے اس کا اندازہ اسے آج سے قبل نہیں تھا ۔ آج یورپ میں پھر سے اس فلسفے پر زور دیاجاتا ہے کہ com beak to home۔ گھر کی طرف واپس آو ۔ اب عورت نامی چڑیا ان کے پنجرے سے نکل چکی ہے اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ عورت کو پھر سے گھر کی طرف لاکریورپ میں مزید خاندانی نظام اور اخلاقیات کو بچایا جاسکے ۔ کنواری مائیں ، بغیر باپ کے بچے اور ایسی گرل فرینڈز جن کو ان کے مرد دوستوں نے ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد عمر کے زوال کے ساتھ دوستی ختم کرکے بیگانہ کردیا یورپ میں ایسے لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ یورپ نظام فطرت سے بغاوت کے بعد سلوپوائزن تباہی کا شکار ہوا ہے ۔ اس تباہی کا اثر دھیرے دھیرے ہوتا رہااب تباہی کا حال یہ ہےکہ یورپ ایک اندھی کائی میں گرنے کو ہے اور اس کا گرنا یقینی بھی ہے مگر بچنے کا راستہ سوائے واپسی کے کچھ نہیں ۔                                                           جاری ہے۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں