یوم خواتین،مغرب اور اسلام _ دوسری قسط



تقابلی جائزہ:
عورت کے معاشرتی مقام پر گزرنے والے تین ادوار کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اب تقابل کی باری آتی ہے ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے کا دور بھی غیرمسلم اقوام اور مذاہب کا دور تھا جبکہ یورپ کے معاشی انقلاب کے بعدکا دور بھی غیرمسلم مغربیوں کا دور ہے ۔ درمیان میں اسلام کے ظہور کےبعد اس کی تعلیمات کا انقلابی دور ہے ۔ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور روشن انقلاب کا تقابل قبل از اسلام کے ساتھ نہیں کرتے کیوں کہ وہ تو خود یورپ کے ڈارک ایجز سے بھی پہلے کا دور ہے ۔ اس دور کی بڑی تہذیبیں آج بالکل نیست ونابود ہیں یا انہیں آج اپنی پرانی تہذیب پر فخر ہی نہیں رہا ۔ اس لیے اصل تقابل یورپ کے موجودہ ترقی یافتہ دور سے ہے ۔ یورپ کو اپنی جس تہذیب ، اخلاق اور ترقی کے دورپر ناز ہے اور جس میں وہ خواتین کے حقوق کا انتہائی زیادہ پروپیگنڈا کررہا ہے ہم اسلام کی روشن تعلیمات اور دیے گئے حقوق کا تقابل اس دور سے کریں گے ۔
حقوق نسواں کے حوالے سے یورپ کے تمام تر پروپیگنڈے پر سوچا جائے تواس کا خلاصہ دو باتیں سامنے آتی ہیں جس کی بنیاد پروہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں :
1: حجاب اوڑھنے کی پابندی ۔
2: عورت کو گھر کی چاردیواری تک محدود کردینا ، ان کے گھروں سے نکلنے اور ملازمت کرنے پر پابندی عائد کرنا ۔
دونوں نکتے بظاہر الگ نظرآنے کے باوجود ایک ہی ہیں کیوں کہ عورت کے گھر سے نکلنے کی حوصلہ شکنی کرنا اس کا باعث دراصل اسے حجاب ہی میں رکھنا ہے ۔ مغرب نے اپنے ناقص مذہب اور پوپ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جمہوریت اور سیکولرازم کو اپنا شعار بنایا ۔ ہر بات اور ہر معاملے پر اسی زاویے سے سوچنا شروع کیا ۔ ان کے ہاں جمہوریت اور سیکولرازم ہی ہر مسئلے کا حل ہے ۔ عوامی خواہشات اور اکثریت کی مرضی ہی ہر معمے کا حل بن کر سامنے آیا ۔ خواتین کی آزادی پر بھی اس نے اسی حوالے سے نعرہ بلند کیا ۔ اسلام میں چونکہ جمہوریت کی اجازت اپنے اس معروف اصطلاح اور رائج طریقہ کار کے ساتھ نہیں ہے اس لیے فطری طور پر یہاں یورپی پروپیگنڈے اور اسلامی تعلیمات میں تضاد آگیا جس یورپ نے اسلامی تعلیمات کو بلاججھک تاریک خیالی اور سخت گیری کا طعنہ دینا شروع کیا ۔ اسلام نے خواتین کے جاب اور حجاب کے حوالے سے کیاتعلیمات دی ہیں اس سے یکسر صرف نظر کرکے صرف اس بات پر زور دیا دیا گیا کہ اسلام حجاب کے ذریعے خیمے نما لباس میں اسے قید اور گھر میں بٹھاکر دراصل نظر بند کرنا چاہتا ہے ۔ یورپی مغربی یا ان سے متاثر ہمارے مسلمان دانشوروں نے اس حوالے سے خوب خوب لفاظیاں کیں ۔ الفاظ کے جادو جگاکر ایسا سماں باندھا گیا کہ جس میں مسلمان عورت کو انتہائی مظلوم ، مقہور اور مرد کو انتہائی جابر وظالم ظاہرکیا گیا ۔                                             جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں