یوم خواتین،مغرب اور اسلام _ تیسری قسط



خرابی کا آغاز اور اس کے تباہ کن اثرات:
دراصل خرابی کی جڑ بھی یہی ہے ۔ وہ عورت جو اس سے قبل مرد کے لیے شریکہ حیات بن کر اسے سہارا دیتی ۔ ماں جو ہر وقت بیٹے کو اپنی دعاوں کے حصار میں رکھتی ۔ بہن اور بیٹی جس کی محبت اپنے بھائی اور باپ کے گرد ہالہ بن کررہتی ۔یورپ کے شاطر دماغ ساہوکاروں نے سب سے پہلے اسے مرد کے مقابلے میں کھڑا کردیا۔  بلاکسی وجہ اسے یہ احساس دلایا جانے لگا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے معاون نہیں بلکہ مخالف فریق ہیں حالانکہ یہ بات اسلامی تعلیمات کے  صریح خلاف ہے ۔قرآن مجید نے صاف فرمایا : هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّعورت تمھارے لیے ستر ہے اور تم ان کے لیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : النساء شقائق الرجال ۔
عورتیں مردوں کے شریک کارہیں۔  یہیں سے خرابی کا آغاز کیا گیا ۔ عورت کے سامنے سماج ، روایات ، ماحول اور مرد کو ایک خوفناک بھوت بناکر پیش کیا گیا جو صدیوں سے عورت کے حقوق پر قبضہ کیے بیٹھا ہے ۔ سماج ، معاشرہ اور روایات سے بغاوت دراصل اسے مذہب سے بغاوت کادرس دینے کی تمہید تھی ۔ اس لیے اگلا قدم مذہب پر پڑا اور صرف حجاب اور وقرن فی بیوتکن {اپنے گھروں میں قرار پکڑو } کے حکم کی وجہ سےپورے مذہب کو عورت کا مجرم قرار دیا گیا ۔ اور یہیں سےسیکولر ازم کے لیے راہیں ہموار کی گئیں ۔ آج بھی این جی اوز اوردیگر مختلف اداروں سے وابستہ خواتین جو عورت کی آزادی کے لیے کوششیں کرتی ہیں وہ خود سیکولر اور جمہوریت پسندکہلواتی ہیں ۔ اسلام نے اپنے ظہور کے بعد عورت کو مرد کے برابر حقوق دلاکر مرد کے دل میں اس کی جو وقعت بٹھائی تھی ،جو احترام دلوایا تھا  اور جو محبت اور اتحاد کا معاشرہ تشکیل دیا تھامغرب نے عورت کومعاشرتی وخاندانی روایات اور ماحول سے بغاوت پر اکساکر معاشرتی نظام تباہ کرکے رکھ دیا ۔ معاشرتی تباہی کے بعد اگلانمبر عورت کو گھر سے نکالنے کے تھا ۔ بغاوت پر آمادہ عورت باہر نکلی تو اسلام کا حکم حجاب بھی ناقابل عمل قراردے دیا گیا ۔ اب حجاب اور گھر سے نکلنے سے کیا خرابیاں پیش آئیں وہ ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آئیے ذیل اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔ بے حجابی اور گھر چھوڑکر مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر کام کرنے کی تحریک یورپ میں زیادہ کامیاب ہوئی ۔ مرد وزن سرمائے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے اندھا دھند دوڑے چلے جارہے تھے ۔  مرد تو فطری طور اس  کام کا اہل تھا اس لیے اسے کوئی مشکل پیش نہ آئی مگر مرد کی طرح کام کرنا عورت کے لیے انتہائی مشکل ہوگیا ۔ پیچھے گھر بار اور بچوں کی ذمہ داریاں تھیں جو ادھوری رہ گئیں ۔  خاندان میں وفاق کی علامت عورت ہوتی ہے جس کے گرد بچے جمع ہوتے ہیں ۔ عورت کی گود ہی بچوں کی تربیت کا پہلا مکتب ہوتا ہے ، خاندانوں میں میل جول بڑھانے میں عورت کا کردار زیادہ ہوتا ہے ۔ گھر میں عورت کا وجود زندگی کی علامت ہوتا ہے ، اسی سے گھر میں رونق ہوتی ہے ۔ سارا خاندانی نظام اسی اکائی سے شروع ہوتا ہے اس لیے جب عورت گھر سے نکلی اور دنیا بھر کی مصروفیات نے اسے جھکڑا تو اس کے لیے بچوں ، رشتہ داروں ، امورخانہ داری اور گھر کی سجاوٹ کےلیے وقت نہیں رہا جس سے خاندانی نظام تباہ ہوگیا ۔ میاں بیوی کی دوریاں ، نفرتیں ، ضداضدی اور اختلاف شدید سے شدید تر ہوتے گئے اور پھر نتیجہ طلاق پر پہنچا ۔  اس لیے ہم دیکھتے ہیں مغرب میں جب یہ کلچرعام ہوا تو طلاق کی شرح بھی بڑھ گئ۔ مغربی عورت گھر سے نکل کر شمع محفل بنی تو بھی وہاں راہ ہموار نہیں تھی ۔ مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اسے نقصان بھی بہت ہوا ۔ عزت ، احترام ، تقدس سب کچھ ہار کر بیٹھ گئی ۔ مرد اور عورت کا تعلق بڑھا تو جنسی بے راہ روی بھی عام ہوگئی ۔ زنا بالرضا اور زنابالجبر کے واقعات روز کا معمول بن گئے ۔ بن باپ کے بچے اور کنواری ماں کا رواج عام ہوگیا ۔ آخر کار اخلاقی ، معاشرتی اور خاندانی تباہی اس حال پر پہنچی کہ اب یورپ میں یہ سب کچھ عیب بھی نہیں ۔ والدین کو بچوں کی ایسی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض یا کسی قسم کی ناپسندیدگی بھی نہیں ہوتی ۔  یہی وہ وجوہات تھیں جن کے باعث یورپ  خاندانی نظام کی تباہی سے دوچار ہو گیا ۔ اعداد وشمار کے حوالے سے دیکھیں اگر ہم حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ خاندان جو کسی بھی معاشرے میں انسان کے تحفظ و نشو و نما کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے عورت کے تقدس کے عدم احترام کے باعث مغربی معاشرے میں شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جس کا لازمی شکار عورت ہی بنتی ہے۔ذیل میں ایک معروف انگریزی ویب سائٹ سے ایک چارٹ لے کر پیش کیا جارہا ہے ۔ جس سے آپ حال ہی میں گذرنے والے سال 2012ء میں اکثر مغربی ممالک میں واقع ہونے والے طلاق کی مجموعی شرح معلوم کرسکتے ہیں ۔
Rank
Countryممالک      
Percent
1
India  انڈیا
1.1
2
Sri Lankaسری لنکا
1.5
3
Japanجاپان
1.9
4
Republic of Macedoniaمقدونیا
5.0
5
Bosnia and Herzegovinaبوسنیا
5.0
6
Turkeyترکی
6.0
7
Armeniaآرمینیا
6.0
8
Georgiaجارجیا
6.6
9
Italyاٹلی
10.0
10
Azerbaijanآزربائیجان
10.3
11
Albaniaالبانیا
10.9
12
Israelاسرائیل
14.8
13
Spainسپین
15.2
14
Croatiaکروشیا
15.5
15
Greeceروم
15.7
16
Singaporeسنگاپور
17.2
17
Polandپولینڈ
17.2
18
Romaniaرومانیا
19.1
19
Sloveniaسلوانیہ
20.7
20
Bulgariaبلغاریہ
21.1
21
Switzerlandسوئیزرلینڈ
25.5
22
Portugalپرتگال
26.2
23
Slovakiaسلواکیہ
26.9
24
Moldovaمالدووا
28.1
25
Latviaلیٹویا
34.4
26
Canadaکینیڈا
37.0
27
Hungaryہنگری
37.5
28
Netherlandsنیدرلینڈ
38.3
29
Franceفرانس
38.3
30
Lithuaniaلٹوانیہ
38.9
31
Germanyجرمنی
39.4
32
Icelandآئس لینڈ
39.5
33
Ukraineیوکرائن
40.0
34
Norwayناروے
40.4
35
United Kingdomبرطانیہ
42.6
36
Russiaروس
43.3
37
Czech Republicزیورخ
43.3
38
Austriaآسٹریا
43.4
39
Belgiumبیلجیم
44.0
40
Denmarkڈنمارک
44.5
41
Estoniaاسٹونیا
46.7
42
Luxembourgلکسمبرگ
47.4
43
Finlandفن لینڈ
51.2
44
Belarusبیلاروس
52.9
45
United Statesریاست ہائے متحدہ امریکہ
54.8
46
Swedenسویڈن
54.9
 یہاں ضرورت تو اس بات کی ہے کہ تمام مغربی ممالک کی شرح طلاق کا مکمل گراف پیش کیا جائے مگر مشتے نمونہ ازخروارے پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔ اس لیے آپ ذیل میں صرف امریکہ 2012ء سے پہلے چھ  دہائیوں میں رہنی والی شرح طلاق کا گراف ملاحظہ کریں ۔
طلاق کی اتنی بلند شرح کے اثرات صرف نوجوانوں پر ہی نہیں بلکہ بچوں پر بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ National Center for Health Statistics کے 1988 کے جائزے کے مطابق Single-Parents خاندانوں (طلاق یافتہ اور بغیر شادی کے بننے والے والدین) کے بچے عدم دلچسپی کے باعث سکول کی تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور لڑکیاں زندگی کی دوسری دہائی میں ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جبکہ اکثر منشیات کے عادی بھی ہیں۔معروف سماجی سائنسدان Nicholas Nill نے 1993ء میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ طلاق یافتہ والدین کے بچے نہ صرف اقتصادی مشکلات کا شکار رہتے ہیں بلکہ تعلیم کی محرومی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لاس اینجلس کے ایک عوامی سروے کے مطابق 69فیصد امریکی طلاق کے مضر اثرات کے ازالہ کی سبیل مستحکم خاندانی نظام کو قرار دیتے ہیں۔
بچوں پر طلاق کے اثرات صرف تعلیمی، نفسیاتی یا اقتصادی ہی نہیں۔ سماجی سائنسدان Sara S. McLanahan کے مطابق وہ لڑکیاں جو اپنا بچپن اور لڑکپن طلاق یافتہ والدہ کے ساتھ گزارتی ہیں مستقبل میں ان کے اسی منہج پر زندگی گزارنے کے 100فیصد سے 150فیصد تک امکانات دیکھے گئے ہیں۔مغربی معاشرے کی عورت صرف سماجی یا معاشرتی سطح پر ہی انحطاط کا شکار نہیں بلکہ ظاہراً معاشی و اقتصادی آزادی کی حامل ہوتے ہوئے بھی استحصال سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مغربی عورت کی معاشی و اقتصادی حالت کا جائزہ یوں پیش کیا گیا :
Women constitute half the world's population, perform nearly two third of its work hours, recieve 1/10th of the world's income, & own less than one hundredth of the world's property.۔
’’دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، دنیا کے دوتہائی کام کے گھنٹوں میں عورت کام کرتی ہے مگر اسے دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ ملتا ہے۔ اور وہ دنیا کی املاک کے سوویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔‘‘{نوٹ: مندرجہ بالا اعداد وشمار ایک معروف مصنف کی کتاب  اور مختلف تحقیقی ویب سائٹس سے لی گئی ہیں ۔}             جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں