مکمل اخلاق،مکمل ہدایت،مکمل انسانیت


بہت عرصہ ہوا ایک کتاب ایک مہربان کے ہاتھوں مطالعے کے لیے ملی ، کتاب کا نام تھا ’’سو عظیم شخصیات ‘‘۔ یہ کسی انگریز کی لکھی ہوئی ہے اوراس میں ان سو عظیم شخصیات کے مختصر حالات جمع کیے گئے جنہوں نے دنیا میں ایسا کوئی تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے دنیا کو ایک نیارخ ملا ہے ۔ اور جنہوں نے انسانی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس کتاب کی فہرست پر نظر ڈالیں یا کتاب کو رکھیں ایک طرف ،اپنے احاطہ معلومات پر نظر دوڑائیں ۔انسانی تاریخ میں کتنے لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے تاریخ کی لوح پر ابدی حیات پائی ہے ۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے نام ہم تک محفوظ چلے آئے ہیں ۔ ہمارے ذہنوں سے ان کے نام محو نہیں ہوتے ۔ بہت سے ایسے ہیں جو اب ہمارے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں ۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ان کا نام کئی بار ہماری زبانوں پر آتا ہے ،
شہرت اور ابدی معرفت کے اس معیار پر آنے کے باوجود بھی کیا ایسے لوگ ہمارے لیے معیار اور آئیڈیل بن سکتے ہیں؟ یا بالفاظ دیگر انسانیت کی فلاح اور انسانی معیاروں کی درستگی کے لیے ان کا کردار کیا رہا ہے ؟انسانی سوچ کو حیوانی جذبات اور احساسات سے نجات دلا کر ایک بلند رخ پر رواں کرنے کا کریڈٹ ان مشہور شخصیات اور ابدی معرفت رکھنے والوں میں سے کس کس کو حاصل ہوا ہے ؟ کون ہے جس نے انسانوں کو مہذب بننے ، مہذب رہنے ، اخلاقیات سیکھنے اور ضد و ہٹ دھرمی سے الگ شائستگی کو سامنے رکھ کرفیصلے کرنے کا طریقہ بتایا ؟
انسانی تاریخ کے ان معروف چہروں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔ اس سٹیج پر کئی طرح کے کردار گزرے ہیں جو بہت سے انمٹ نقوش چھوڑگئے ہیں ۔ ان میں کائنات کے پردۂ راز میں چھید لگانے والے بہت سے سائنسدان بھی ہیں جن کی عقل رسا سے ایسے محیرالعقول کارنامے وجود پذیر ہوئے کہ انسانیت آج بھی دنگ کھڑی دیکھ رہی ہے ۔ کسی نے کہا تھا آ ج کی دنیا کی باتیں اگر کوئی دو چار صدیوں پہلے کے لوگوں کو بتائے تو یقیناًوہ اسے پاگل ہی سمجھیں گے ۔ یقیناًبات بھی ایسی ہے سائنس کی دنیا میں تیز رفتار انقلابات کا وجود اب آئے روز کی ایک بات بن چکی ہے ۔
ان معروف ہستیوں میں بڑے بڑے فلاسفر اور ریاضی دان بھی شامل ہیں، جن کے مقررکردہ اصول و ضوابط، جن کے تشکیل دیے گئے نظام اور وضع کردہ اخلاقیات آج دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ جن کے افکار سے علوم کے سوتے پھوٹے، جن کے خیالات سے فنون کے چشمے رواں ہوئے ۔ جنہوں نے اپنے مختصر الفاظ میں ہزاروں مفہوم سموئے ۔ لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ۔ جن کے الفاظ سمجھنے کے لیے باقاعدہ کسی سے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور پڑھانے کے لیے باقاعدہ ڈگری لینی پڑتی ہے۔
ان مشہور ناموں میں ایک جماعت نامور شعراء کی بھی ہے ، شاعر بھی وہ جن کے الفاظ سحر بن عقلوں کو مبہوت کردیتے ہیں ۔ فن سخن وری کے وہ امام جن کے بلند قد دیکھنے لگو تو ٹوپی سر سے گرجاتی ہے ۔ ان کے تخیلات کی بھٹی سے تشبیہات و استعارات کے وہ نمونے تیار ہوکر نکلے شاعری کی تاریخ میں صدیوں سے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ کیا حمد ونعت ، کیا گیت اور نوحے ، کیا قصیدے اورہجویے ، کیا طنز اور رجزیے ،کیا غزل اور دوہے ۔ شہر آشوب اور کیا کیا میدان سخن ہیں جہاں انہوں نے شاعری کے جھنڈے گاڑے اور گاڑتے چلے گئے ۔ صدیاں گزرگئیں مگر یہ پھریرے اور علم اب بھی لہرارہے ہیں ۔ بہت سوں نے ان کے مقابلے کی ٹھانی مگر منہ کی کانی پڑی ۔ ان کے الفاظ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ کر امر ہوگئے ۔ شاعری کی تاریخ میں وہ حیات ابدی پاگئے۔
اس فہرست میں تاریخ عالم کے وہ شہسوار اور فاتحِ شمشیر زن بھی ہیں جن کی تلواروں نے انسانوں کے لشکر کے لشکر کاٹ کر رکھ دیے ۔ جنہوں نے علاقے اور ملک کیا خطوں کو تاراج کرکے رکھ دیا ۔ ان میں ایسے فاتح بھی ہیں روئے زمین کے چپے چپے پر جن کی حکومت کا سکہ چلتا تھا ۔ وسیع وعریض مملکتوں کے حکمران ، پرتعیش محلات کے مالک ، جن کی شان و شوکت اور رعب وجلال سے بڑے بڑے حوصلے والے لوگ کانپ اٹھتے تھے ۔ جن کے لشکروں کا محض نظارہ دیکھنے کے لیے بھی خاصا حوصلہ درکار ہوتا تھا ۔
اور کیا کیا کمال والے نہیں آئے اس دنیا میں ۔ آئے اور چلے بھی گئے مگر ان ہزاروں لاکھوں لوگوں میں تاریخ کوئی ایک بھی ایسی شخصیت دکھادے جو اپنے کردار، اعمال اور اخلاق میں اس آخر الزمان جیسا ہو۔ عقیدہ اور عقیدت و محبت کچھ دیر کے لیے ایک طرف، معروضی حقائق اورزمینی شہادتوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجیے ۔ افلاطون کے فلسفے آج دنیا بھر میں پڑھائے جاتے ہیں مگر دل سے کہیے کیا یہ فلسفے ان درسگاہوں سے باہر نکل پاتے ہیں ؟ ان کی اخلاقیات کی تعلیم باقاعدہ سبقا دی جاتی ہے مگر ان اخلاقیات سے کبھی کوئی متاثر ہوا ، یا کسی قبیلے ، قوم یا علاقے میں ان کی اخلاقیات سے کوئی انقلاب آیا ؟ آخر کیا وجہ ہے عملی زندگی سے زیادہ ان کے افکار پر بحث کی جاتی ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ان کی اخلاقیات اور فلسفوں کے پیچھے عمل کی قوت نہیں تھی ۔ وہ محض افکار تھے جنہوں نے الفاظ کا روپ دھار لیا ۔ ایسا نہ ہوتا تو آج افلاطون ، فیثاغورث ، ارسطو ، ارشمیدس اور دوسرے یونانی مفکرین کے الفاظ سے زیادہ اعمال پر کتابیں لکھی جاچکی ہوتیں ۔ ہندوستان کے گاندھی جی کا فلسفہء عدم تشدد بہت مشہور ہے ، اسلام کے نظام قصاص کے خلاف اس کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ ’’اگر آنکھ کے مقابلے میں آنکھ کا مطالبہ کروگے تو ایک ساری دنیا اندھی ہوجائے گی ‘‘۔مگر گاندھی کے اسی عدم تشدد سے شدی اور سنگٹھن کی خالص مذہبی اور متشدد تحریکوں نے جنم لیا جن میں سینکڑوں جانیں چلی گئیں ۔ شعراء اور سخن وروں کی کہانی بھی ان سے کچھ مختلف نہیں ۔ ہر طرح کی قادر الکلامی کے باوجود کیا ان میں کبھی جذبہ عمل بیدار ہوا ہے ؟ سوچوں کی وادیوں میں بھٹکنے کے علاوہ اس طبقہ کا عملی زندگی میں کوئی کردار نہیں ہوتا ۔ الفاظ کے جوڑ بند میں ان کا عملی کردار بالکل کالعدم ہوکر رہ جاتا ہے ۔ بے انتہاء مبالغہ آرائیوں کے باعث ان کے قول و عمل کا تضاد ہر شخص کے سامنے کھلی کتاب ہو تا ہے ۔
فاتح عالم شمشیر زنوں کے احوال بھی دیکھیے ! جن کی تلواروں نے بستیاں تاراج کردیں ، انسانیت برباد کردی اور لاکھوں لوگوں کے قاتل بنے ان سے انسانیت کونسی فلاح پاتی ، انسانیت کو تباہی وبربادی کے علاوہ ان سے کچھ بھی نہ ملا۔ زیادہ سے زیادہ ملک گیری کی ہوس میں انہیں انسانیت پر کچھ بھی رحم نہیں آیا ، انسانیت کا خون بہانے میں انہیں ذرا بھی تردد نہیں ہوا ۔
رہی سائنس اور سائنسدانوں کی دنیا ،یقیناًایجادات کی دنیا میں انسانیت کا معیار زندگی بہتربنانے کے لیے ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں ۔ دنیا کو ترقی دینے میں ان کا کردار سب سے زیادہ ہے ۔ وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں ، زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں ان کے زیر احسان ہیں مگر یہ ایجادات اور مصنوعات انسانیت کو سہولیات سے زیادہ کچھ نہیں دے سکے ہیں ۔ یقیناًبنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی اورانسانیت کی خدمت کے شعبے میں ان کا احسان ہمارے کندھوں پر ہے ، مگر انسانیت کی فلاح کا عملی نمونہ جو انبیاء کرام خصوصا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور انسانوں کو عملی راہ دکھائی یہ صرف انہیں کا خاصہ ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی تعلیمات میں عملیت پسندی کو ترجیح دی ۔ چینی مفکر ماوزے تنک کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ جب ان کے پاس ایک بھکاری آیا اور کھانے کو مانگا انہوں نے کہا ’’جاو کماکر کھاو اور کچھ نہیں تو مچھلیوں کا شکار کرو ، انہیں بیچ کر کھانا کھاؤ۔ ‘‘ یا تقریبا اس سے ملتے جلتے الفاظ ۔ دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ احادیث میں مشہور ہے کہ جب آپ کے پاس ایک شخص آیا اور سوال کیاتو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ جاو جنگل میں لکڑیا ں کاٹ کر لاؤ اور بازار میں بیچو ۔بلکہ آپ نے ان کا سارا اثاثہ ایک کٹورا اور ایک بچھونا منگوایا ۔ اسے بیچ کر آدھی رقم سے کھانا لینے اور آدھی رقم سے کلہاڑے کا پھل اور رسی لانے کوکہا۔ اس نے کلہاڑے کا پھل حاضر کیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونک کر فرمایا جاؤ اس سے لکڑیا ں کاٹو اور بازار میں بیچو یہ تمھارے لیے سوال کرنے اور مانگے سے زیادہ بہتر ہے ۔ اس واقعے میں دیکھیے اس فقیر کے گھر سے کٹورا اور بچھونا منگوانے کا مقصد بھی یہ تھا کہ تم کسی کااحسان سر پر لینے کی بجائے اپنے بل بوتے پر اور اپنے ہی سرمائے سے کام کا آغاز کرو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ساری غموں پریشانیوں اور تنگیوں سے عبارت ہے ۔ مکی زندگی کے دس سال کا مطالعہ کریں صبح شام تکالیف اور پریشانیاں ، محض بت پرستی کی مخالفت اور دین اسلام کی دعوت پر لوگ ایسے دشمن ہوگئے کہ جانی دشمن بھی ہوں تو اتنی سختی کا مظاہرہ نہ کریں ۔ پشتوں کی دشمنی میں بھی کوئی اس قدر شقاوت کا مظاہرہ نہیں کرتا ہوگا جتنا سخت سلوک آپ سے کیا گیا ۔شعب ابی طالب میں آپ کو مقید کرکے آپ کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا ۔ خاندان کے بچے بھوک سے روتے بلکتے تھے ، ان کی چیخیں وادی سے باہر کافروں نے خود سنیں مگر دل نہ پسیجا ۔ اس کے بعد مدنی زندگی میں مدینہ منورہ پر حملے ہوئے ، بدر ، احد اور خندق کی تین جنگیں ہوئیں ، آپ نے بچپن سے یتیمانہ زندگی گزاری ۔ آپ کے ساتھیوں پر مظالم کے پہاڑ تھوڑے گئے ، حضرت سمیہ کو ابوجہل نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر شہید کردیا ، حضرت خباب کو انگاروں پر لٹایا گیا ، بلال حبشی کو گرم ریت پر گھسیٹا گیا ، حضرت عمار ہجرت کو روانہ ہوئے تو ان کے بیوی بچوں کو ان سے چھین کر انہیں تنہا مدینے جانے دیا گیا ، گالیاں ، طنز ، طعنے یہ سب تو روز کی باتیں تھیں ۔ ایسا شخص جس کا بچپن محرومی، بے چارگی اور غربت میں گزرے اور پھر اس قدر مشقتیں اور تکلیفیں اس پر آجائیں ۔ اپنی ذات اور اپنے مخلص ساتھیوں پر اس قدر وحشیانہ مظالم سہنے کے بعد فطری طورپر انسان منتقم المزاج ، شقی القلب اور درشت مزاج ہوجا تا ہے ۔ معاشرے سے اپنا انتقام اس کی پہلی اور آخری خواہش ہوتی ہے ، اور پھر جب اسے قوت ملتی ہے تو وہ مجسم انتقام بن کر وہ خون بہاتا ہے کہ الامان الحفیظ ۔ مگر آپ ﷺ کی زندگی میں ڈھونڈنے کو بھی ایسی مثال نہیں ملتی ،انسانی اقدارکا دامن اور ضبط کا بندھن کبھی آپ کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹا ۔ زندگی کے کسی موڑپر جذبات سے مغلوب نہیں ہوئے ۔ ہمیشہ شائستگی ، بہتر اخلاق ، نیک خواہشات اور ہمدردی سے پیش آئے ۔انسانیت اور شرافت کو کبھی داغدار ہونے نہیں دیا ۔ ڈرائنگ روم اور بند کمروں میں کانٹے چبھے بغیر فلسفے بگھارنا اور اصول پیش کرنا انتہائی آسان ہوتا ہے مگر اصول اور قواعد بیان کرنا ، اخلاقیات کا درس دینا اور شرافت کی معیاریں بتانا اور پھر جیسے ہی مشکل سے مشکل حالات آئیں اپنے بیان کردہ اخلاقیات سے سر مو انحراف نہ کرنا ، اپنے بیان کردہ اصولوں اور
قوانین پر خود عمل کرکے دکھانا یہ سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ انسانی معاشرے میں بگاڑ در اصل انسان کی اندرونی بری صفات کی وجہ سے آتا ہے ۔ تکبر ، اکڑ ، ہٹ دھرمی ، ضد ، بغاوت ، جہالت ، غصہ ، حسد ، بغض ، کینہ ، لالچ ، دھوکہ ، جھوٹ اور غیبت جیسی انسان کے دل کی بیماریاں ہی دراصل معاشرے کی خرابی کا باعث ہوتے ہیں ۔ انہیں کے باعث انسانیت ، انسان پروری ، رحم ، شفقت اور عفو و درگزر کے جذبات معاشرے سے مٹ جاتے ہیں ۔ اور آپ کی زندگی میں ان صفات رذیلہ کا شائبہ بھی نہیں ملتا ۔
آپ فاتح بنے تو عام فاتحین سے آپ کی زندگی انتہائی الگ تھی ، کسی سے انتقام نہیں لیا ، جنگوں میں بوڑھوں بچوں اور کمزوروں کو قتل نہیں ، لوگوں کی زراعت اور کھیتیوں کونقصان نہیں پہنچایا ، فتح اور کامیابی کے بعد اس کا جشن نہیں منایا ، اپنی کامیابی پر کبھی غرورکا ایک جملہ نہیں کہا ، دشمنوں کو ان کی پرانی دشمنی یاد تک نہیں دلائی ، فتح مکہ کے وقت مکہ میں داخل ہورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبار ک اللہ کے حضور عاجزی سے جھکاجارہا تھا ۔ آپ کا سرمبارک بار بار اونٹنی کے کوہان سے ٹکراتا تھا اور آپ اللہ کا حمد اور ذکر کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہورہے تھے ۔ آپ عام فاتحین کی طرح ہوتے تو اس دن سینہ تان کر گھوڑے پر سوار ہوتے ، تلوار لہراتے اور چیختے دھاڑتے مکہ میں داخل ہوتے ، آپ کے سپاہی گلی کوچوں سے اپنے پرانے دشمنوں کو چن چن کر قتل کرتے، مکہ کی گلیوں میں قتل عام ہوتا ، سارے مشرکین اس دن ماردیے جاتے ، ابوسفیان قریش کا سردار اس دن مسلمان ہونے کی بجائے سرعام دار پر لٹکایا جاتا ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت العالمین ہیں ، آپ نے اس طرح کا کوئی طرز عمل اختیار نہیں کیا ۔ اس دن مکہ میں امن ہی امن ، سکون ہی سکون ، خاموشی ہی خاموشی چھائی رہی ۔
آپ ریاست مدینہ کے حکمران تھے ، فتح مکہ کے بعد یہ ریاست مکہ تک پھیل گئی مگر عام بادشاہوں کی طرح آپ نے کوئی طرز عمل اختیار نہیں کیا ، عیش و عشرت کی زندگی اختیار نہیں کی ، چاہتے تو عام بادشاہوں کی طرح محلات اور جائیدادوں کی ریل پیل لگاسکتے تھے مگر آپ نے اپنے قد مبارک سے بڑا کمرہ بھی تعمیر نہیں کروایا ، کوئی جمع پونجی اور تجوریاں نہیں بنائیں ، ازواج مطہرات کے پاس زیورات کا کوئی خزانہ محفوظ نہیں کروایا ۔ آپ دولت جمع کرنا چاہتے تو اتنی جمع کرلیتے کہ نواسوں (حضرات حسنین رضی اللہ عنہما) کی اولاد بھی آرام سے جی لیتی ، مگر آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھا تھا ، گھر میں نو تلواروں ، ایک لکڑی اور ایک پتھر کا پیالہ اور کچھ دیگر چھوٹی چھوٹی چیزوں سے زیادہ کوئی سامان آپ کے گھر سے برآمد نہیں ہوا ۔
آپ کی زندگی انتہائی سادہ ، بے تکلف اور کر وفر سے پاک تھی ۔ بکریاں چَرائیں ، چچاکے ساتھ تجارت کے لیے نکلے ، عام لوگوں میں اٹھے بیٹھے ، اپنے گاوں اور ملنے جلنے والوں میں سچائی ، دیانت ، نیک سیرت اور اچھے اخلاق کا نمونہ بن کر رہے ، کفر ، شرک ، بت پرستی ، جادو ، لڑائی جھگڑے ، شراب خوری اور ہر طرح کی خرابیوں سے بھر پور معاشرے میں ان ساری خرابیوں سے خود کو محفوظ رکھ کر جیتے رہے ، اور لطف تو یہ کہ خود کو ان گناہوں سے بچانے کے لیے کبھی کسی سے لڑے جھگڑے نہیں ، کسی سے ہاتھاپائی اور کشت وخون کی نوبت نہیں آئی ۔ کبھی غلطی سے بھی کسی کی دل آزاری نہیں کی ۔ کسی پر طنز ، تشنیع ، گالم گلوچ اور بے جا غصہ آپ کے مزاج ہی میں نہیں تھا ۔ کوئی ملتا تو اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک وہ خود جانے کی اجازت نہ لیتا ۔
سیرت کا مطالعہ کریں اور آپ ﷺ کے اخلاق پڑھیں اور اس کے بعد آپ ﷺکے ارشادات اور فرامین پر نظر دوڑائیں کوئی بھی شرعی حکم
ایسا نہیں ملے گا جس پر عمل کرنے میں حضور ﷺ نے تساہل سے کام لیا ہو ۔ دوسروں کو عمل کی ترغیب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کچھ دیر کے لیے عقیدت اور اعتقاد سے ہٹ کرمحض ایک شخص کے حالات زندگی کی نظر سے کریں آپ کی حیات طیبہ میں ایک کامل انسان ، ایک مکمل ہادی اور مجسم اخلاقیات کا ایک نمونہ نظر آئے گا۔

2 تبصرے:

  1. بہت اچھی تحریر ہے ۔ سُبحان اللہ ۔ جو خوبیاں اللہ نے اپنے رسول سیّدنا محمد ﷺ میں ہیں وہ کسی اور بشر میں اللہ نے نہیں رکھیں

    جواب دیںحذف کریں